الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۰

زلیخا نے حسن کو آنکھ سے اشارہ کیا کہ ارسلان سے وہ باتیں پوچھنا شروع کرے جو گھر سے سوچ کر آئے تھے۔
حسن نے کھنکھار کر گلا صاف کیا اور ارسلان سے کہا: ’’آج آپ کی فیاضی کے سبب وہ کچھ جو کبھی پیشتر نہیں دیکھا تھا، آج دیکھنے میں آیا، خدا کی قدرت کو مجسم پایا۔ اب سوچتا ہوں کاش اُس کو بھی لے آتا۔‘‘
زلیخا نے حیران ہو کر حسن کی صورت دیکھی کہ یہ کیا بات کرتا ہے۔ ارسلان کے کان کھڑے ہوئے۔ دلچسپی سے پوچھا۔ ’’اُس‘‘ کون؟‘‘
حسن نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور بولا: ’’ایک گلبدن، غنچہ دہن دو شیزہ، میری محبوبۂ پری پیکر، رشکِ قمر، گلعذار وطرحدار ہے۔ اس سے آئیلویولو کرتا ہوں، عشق کا دم بھرتا ہوں۔‘‘
ارسلان نے حیرت سے اور متاثر ہو کر کہا: ’’واؤ! تم تو شاعر ہو یار۔ اچھا تو یہ جو تمہاری گرل فرینڈ ہے۔ سوری تمہاری محبوبۂ۔۔۔ what ever ہے، کلاس فیلو ہے تمہاری؟‘‘
حسن نے کہا: ’’نہیں۔ ہمسائی ہے۔ اس سے نئی نئی آشنائی ہے۔‘‘
ادھر حسن تو ہنسی خوشی محبوبہ کی باتیں کرتا تھا، ادھر زلیخا کا یہ حال کہ حیران پریشان تھی۔ حسن کو گھورتی تھی اور اشارے کرتی تھی کہ یہ بکواس بند کرے اور کام کی بات کرے۔
ارسلان نے دلچسپی سے پوچھا: ’’اچھا، ہمسائی ہے؟ پھر ملاقات تو ہوتی ہو گی؟‘‘
حسن نے کہا: ’’ہاں وہ عشق ہی کیا جس میں محبوب سے ملاقات نہ ہو۔ دور دور کا عشق بھی کوئی عشق ہے؟ عشق تو یہ ہے کہ ملاقات ہو، رازونیاز کی بات ہو۔ عاشق معشوق کو گلے لگائے، لپٹے لپٹائے، دلی آرزو بر آئے۔‘‘
زلیخا بھونچکا ہو کر بولی: ’’واٹ؟ یہ کیا بکواس کر رہے ہو؟‘‘
زلیخا کا چہرہ تو مارے خفت کے سرخ پڑ گیا تھا لیکن ارسلان کا چہرہ مارے خوشی کے کھل اٹھا تھا۔ حسن کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر بولا: ’’صحیح پہنچا ہے۔‘‘
زلیخا یہ سن کر اور بھی حیران ہوئی۔ حسن کو گھور کر بولی: ’’Don’t be a pervert۔ محبت اور ٹھرک میں فرق ہوتا ہے۔‘‘
حسن نے حیران ہو کر کہا: ’’کیا فرق ہوتا ہے؟‘‘
زلیخا کا چہرہ اور بھی سرخ پڑ گیا۔ لیکن خود پر قابو پایا اور تمکنت سے بولی: ’’محبت انسان کے دل سے کی جاتی ہے، روح سے کی جاتی ہے۔‘‘
حسن نے مسکرا کر کہا: ’’تو پھر ہر کوئی حسینوں پر ہی کیوں عاشق ہوتا ہے؟ دیوان کے دیوان محبوبوں کے حسن کے قصیدوں سے بھرے پڑے ہیں۔ کیوں؟ کبھی بدصورت محبوب پر لکھا کوئی شعر پڑھا؟ دل اور روح سے محبت کرنی ہو تو انسان اپنے ماں باپ سے محبت کرے، بہن بھائیوں سے محبت کرے۔ کسی حسینہ پر عاشق کیوں ہوتا ہے اور اس سے شادی کیوں کرنا چاہتا ہے؟ عشق کیا ہے؟ بغل گرمانے کا بہانہ ہے۔‘‘
زلیخا گنگ ہو کر حسن کو دیکھتی رہی۔ حسن نے چند لمحے اس کے جواب کا انتظار کیا، پھر ارسلان سے بولا: ’’کیو ں صاحب، یہ پاکیزہ محبت بھی کوئی چیز ہے؟‘‘
وہ بے ساختہ بولا: ’’کوئی چیز نہیں۔ عشق کیا ہوتا ہے؟ نوے فیصد Lust اور دس فیصد دوسری چیزیں۔‘‘
زلیخا نے کچھ کہنے کو منہ کھولا کہ اتنے میں وہ شخص جو پہلے آیا تھا، دوبارہ آیا۔ کھانے کی قابیں بھری ہوئی لایا۔ ایک ایک طشتری سب کے سامنے رکھی۔ حسن نے دیکھا کہ دو چھوٹے چھوٹے نانوں کے بیچ میں ایک کباب رکھا تھا۔ ساتھ ایک ساغر نما صراحی میں آبِ ناب تھا۔
وہ بے ساختہ پکار اٹھا: ’’واہ! اس وضع کا کھانا تو پہلے کبھی نہ دیکھا نہ سنا۔ یہ مرغ و ماہی کا کباب، اوپر تلے شِیرمال اور یہ ساتھ کیا ہے؟ آہا! سلاد سبزۂ زمردگوں، کلی ہائے معطر کے الوانِ بوقلموں۔۔۔‘‘
زلیخا نے ایک کہنی حسن کی پسلیوں میں ماری اور سرگوشی میں بولی: ’’کیا کہہ رہے ہو؟ چپ رہو۔‘‘
لیکن حسن کچھ نہ سنتا تھا۔ وہ تو اس ساغرِ مینا کو دیکھتا تھا کہ جس میں قلقل کرتا کچھ کالا، کچھ سرخ اور کچھ سنہرا شربت جھلملاتا تھا۔ حسن نے اس شیشے کو اٹھا کر غور سے دیکھا اور پکار اٹھا: ’’یہ شربت انار ہے یا قند کا آبِ لطافت بار ہے؟ یا شراب کا کنٹر جواہر خیز و گوہر یار ہے؟‘‘

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۹

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!