حسن بے چارہ قلندر مشرب، غریب الوطن تھا۔ زلیخا کی زبانی یہ حکم سنا تو خاموش ہو کر بیٹھ رہا۔ اندوہ گیں و خستہ حزیں تھا، سراسیمہ و پریشان تھا۔ ڈر کے مارے جان لبوں پر آئی تھی، گھبراہٹ سے طبیعت گھبرائی تھی۔ سامنے، دیوار کے پیچھے ایک دیوہیکل گدھا انسانوں کی مانند دو پیروں پر چلتا، ہنستا بولتا تھا اور اس کی شبیہہ دیوار پر نظر آتی تھی۔ ایک لومڑی تھی جو نہایت چست و چالاک تھی، بہت بے باک تھی۔ اچانک ایک اس جثے کا شیر نمودار ہوا کہ بڑے سے بڑا دیو بھی اسے دیکھ کر شرمائے، مقابلے کو نہ آئے۔ یہ تماشائے عجیب و غریب دیکھا تو حسن کو اس قدر خوف معلوم ہوا کہ جسم کا رونگٹا رونگٹا کھڑا ہو گیا۔ اس نے آنکھیں میچ لیں اور آیت الکرسی پڑھنے لگا اور جیسا کہ کلام الٰہی کی تاثیر ہے، ذرا دیر نہ گزری تھی کہ حسن کے دل کو ڈھارس ہونے لگی۔ پہلے ایک آنکھ کھول کر دیکھا، پھر دوسری بھی کھول لی۔ اب جو ذرا جان میں جان آئی تو حسن کو خیال آیا کہ یہ یقیناً اسی ساحرِ کامل فن کی فسوں سازی ہے اور اسی کی شعبدہ بازی ہے جو گھر میں ٹی وی چلاتا ہے، دنیا جہاں کے تماشے دکھاتا ہے، اور ٹی وی بالکل بے ضرر شے تھی، اگرچہ پرُاز طلسمات ہائے پے در پے تھی۔
اس خیال کا آنا تھا کہ حسن بدرالدین کی جان میں جان آئی۔ اسے یقین ہو گیا کہ یہ سب دیوہیکل جانور دیوار کے پیچھے سے جھلک دکھائیں گے، سامنے نہ آئیں گے اور ہرگز مجھے کھا نہ جائیں گے۔ یہ سوچ کر وہ سکون سے بیٹھ گیا اور تماشہ دیکھنے لگا۔ ایک دیوزاد گدھے کی کہانی تھی جو غریب بے چارہ تھا اور تھوڑا سا آوارہ تھا۔ اسے دھوکے سے راجہ بنایا جا رہا تھا، اور بھی بہت سے جانور تھے جو بولتے تھے، ہنستے تھے اور وقفے وقفے سے گانے بجانے لگتے تھے۔ یہ حال دیکھ کر حسن اس قدر محظوظ ہوا کہ جب یہ تماشہ ختم ہوا تو اسے بہت افسوس ہوا۔ لیکن زلیخا اور ارسلان کے ساتھ خوش خوش باہر آیا اور ارسلان کو آداب بجا لایا اور فرمائش کی کہ یہ تماشا ہمیں از بس پسند آیا ہے اور مزید ایک بار دیکھیں گے بلکہ بار بار دیکھیں گے۔
یہ سن کر ارسلان ہنسا اور زلیخا سے بولا: ’’بڑا یونیک سینس آف ہیومر ہے تمہارے کزن کا۔‘‘
اس کے جواب میں زلیخا نمائشی سی مسکراہٹ لبوں پر لائی اور نظر بچا کر حسن کو گھوری دکھائی۔ مگر اب حسن کا خوف دور ہو چکا تھا اور وہ خوشی خوشی ہر چیز کو دیکھتا تھا اور عش عش کرتا تھا۔ زلیخا سے پوچھا: ’’یہ مقام مینوسواد، رشکِ بہشتِ شداد کس بادشاہِ عالی مقام کا ہے؟‘‘
جواب میں زلیخا نے زور سے اس کے بازو میں چٹکی کاٹی اور ارسلان سے کہا: ’’ذرا ہائپر سٹار تک چلیں؟ مجھے کچھ چیزیں لینی ہیں۔‘‘
یہ کہہ کر تیز تیز چلنے لگی۔ حسن بازو سہلاتا پیچھے ہو لیا۔
معاً ایک وسیع و عریض کمرے میں پہنچے جس کی لمبائی چوڑائی کسی بادشاہ کے دربارِ عام جتنی تھی اور جہاں طرح طرح کا سامان سجا ہوا تھا۔ اس قدر سامان دیکھ کر حسن حیران ہوا اور بولا: ’’یہ کیا جگہ ہے؟‘‘
ارسلان نے ہنس کر کہا: ’’دکان ہے۔‘‘
حسن بے ساختہ پکار اٹھا۔ ’’دکان ہے یا حوروں کے رہنے کا مکان ہے، بلکہ پرستان ہے۔‘‘
ارسلان قہقہہ لگا کر ہنسا اور آگے بڑھ گیا۔ زلیخا نے موقع پا کر حسن کو ایک جانب گھسیٹا اور تیزی سے بولی: ’’جلدی سے بات سنو، ٹائم کم ہے۔ یہ پیسے رکھ لو۔ ارسلان نے فلم کے ٹکٹس کے پیسے دیے تھے، اب میں چاہتی ہوں کہ کھانے کی پیمنٹ ہم کریں۔ احسان نہیں لینا چاہتی میں اس کا۔‘‘
حسن نے کہا: ’’یہ پیسے تم رکھو۔ میرے پاس پیسے ہیں۔ پورے پندرہ سو روپے۔‘‘
زلیخا نے ماتھے پہ ہاتھ مارا اور بولی: ’’اس میں کیا آئے گا؟ دیکھو بحث مت کرو، ابھی ارسلان آجائے گا۔ رکھو یہ پیسے، بائیک میں پٹرول بھی ڈلوا لینا۔‘‘
یہ کہہ کر جلدی سے حسن کے ہاتھ میں پیسے تھمائے اور آگے بڑھ گئی۔ حسن اس کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔
اس دکان میں گھوم پھر کر حسن بہت خوش ہوا۔ یہ دیکھ کر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ برتن، جرابیں، گیند، قالین اور سبزیاں سب ایک ہی دکان سے ملتی ہیں۔ دل میں سوچا، یہ بھی ایک معاملۂ عجیب ہے، بھلا یہ کس سوداگر کے ذہنِ رسا کی ترکیب ہے؟ زلیخا نے وہاں سے کچھ چیزیں خریدیں اور کہا: ’’چلو اب کھانا کھاتے ہیں۔‘‘
بہت دیر چلنے کے بعد ایک جگہ پہنچے جہاں بہت سی میزیں کرسیاں رکھی تھیں اور لوگ باگ بیٹھے کھانا کھاتے تھے۔ یہ جگہ بھی خوب سجی سجائی تھی، رنگ برنگ کی قندیلوں سے جگمگائی تھی۔ حسن، زلیخا اور ارسلان ایک میز خالی دیکھ کر بیٹھ گئے۔ ارسلان نے ایک شخص کو اشارہ کیا، وہ بسروچشم آیا اور باادب ہو کر پوچھا: ’’کیا آرڈر کریں گے، سر؟‘‘
حسن سمجھ گیا کہ کھانے کو پوچھتا ہے۔ فوراً بولا: ’’باورچی سے کہو گرما گرم اطمعۂ لذیذ اور حلوائے نفیس پیش کرے۔‘‘
زلیخا نے اس شخص سے کہا: ’’ان کا مطلب ہے دو بیف برگر لے آئیے۔ ارسلان آپ کیا کھائیں گے؟‘‘
ارسلان نے کچھ نام لیا اور وہ شخص چلا گیا۔