الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۰

معشوقۂ زہرہ تمثال، جادو جمال کا فون نمبر ہاتھ آیا، حسن کا غنچۂ دل از بس کھلکھلایا۔ فوراً بُندو کو فون ملایا اور اس سے پوچھا: ’’اے یارِ جانی، الفت کی نشانی، یہ تو بتا کہ معشوقۂ طرحدار، یوسف رخسار کو فون کر کے کیا کہا جائے کہ وہ عش عش کرنے لگے، محبت کا دم بھرنے لگے۔ جلد بتاؤ، بالکل نہ شرماؤ کہ میرے دل کا اب عجب حال ہے، مرغِ روح شکارِ شاہینِ جمال ہے۔‘‘
بُندو جو کہ میدانِ عشق کا شاہسوار تھا، خود بھی کسی حسینہ کے دامِ الفت میں گرفتار تھا، نے کہا: ’’او بھائی، اور تو جو مرضی کہنا بس یہ جو تُو گاڑھی اُردو میں ڈائیلاگ بولتا ہے، یہ نہ بولنا۔ اس بکواس کو سن کر وہ پھر تجھ پر کتّا چھوڑ دے گی۔‘‘
اس سگِ پلید و رو سیاہ کا نام سنا تو حسن بدرالدین کا کلیجہ منہ کو آیا، بڑا صدمہ اٹھایا۔ روہانسے ہو کر کہا: ’’ازبرائے خدا اس کتّے کا ذکر کر کے میرے زخموں پر نمک نہ چھڑکو۔ میں پہلے ہی مضطرب و مضطر، تنہائی اور اپنے زمانے سے جدائی کے سبب بے خواب و خور ہوں۔ اوپر سے عشق نے مجنون کیا ہے۔ دن کو آہ و زاری، رات کو اختر شماری کام ہے، عیش برائے نام ہے۔‘‘
بندو نے اُکتا کر کہا: ’’اچھا اب یہ لن ترانیاں بند کر اور غور سے میری بات سن۔ سب سے پہلے تو یہ بتا کہ پیسے کتنے ہیں تیرے پاس؟‘‘
حسن نے فخر سے کہا: ’’پورے تین ہزار۔‘‘
’’بیڑا غرق!‘‘ بندو نے کہا: ’’ان پیسوں میں یا تو تُو اس کو ڈیٹ پہ لے جا سکتا ہے یا کوئی تحفہ دے سکتا ہے۔‘‘
یہ سن کر حسن حیران ہوا مگر پھر خیال آیا کہ نیا زمانہ ہے، نئے رنگ ہیں اور ویسے بھی جس دکان میں وہ کام کرتا تھا وہاں ایک ایک جوڑا ہزاروں کا بکتا تھا۔ نئے زمانے میں روپے کی قیمت کوڑی برابر تھی۔ مایوس ہو کر اس نے بندو سے کہا: ’’اب مجھے کوئی امید نہیں۔ بنا روپیہ پیسہ عشق کرنا دلیلِ حماقت ہے، مفلسی کی محبت عین جہالت ہے۔ دنیا میں صرف پیسے کا اعتبار ہے، مفلس عاشق سے بڑھ کر بھی کوئی ذلیل و خوار ہے؟‘‘
یہ سن کر بندو نے تسلی دی اور کہا: ’’اچھا چل اب زیادہ سینٹی نہ ہو۔ کرتے ہیں کچھ تیرا۔ تُو ایسا کر کہ ایک چاکلیٹ کا ڈبہ اور ایک پھولوں کا بُکے کوریئر سے اس کو بھیج اور اس کے ساتھ ایک کارڈ لگا جس پہ لکھ ‘تھکنگ آف یو’۔ ساتھ اپنا فون نمبر بھیج، وہ تجھے خود کال کرے گی۔‘‘
یہ تقریر سن کر حسن دُبدُہا میں آیا، اس بات کا کچھ سر پیر سمجھ نہ آیا۔ بندو سے بصد اصرار سماجت کی کہ تفصیل سے ہر بات بتاؤ، رازِ نہانی ذرا نہ چھپاؤ۔
جواب میں بندو نے وعدہ کیا کہ آج شام کو گھر آئے گا، حسن کو ساتھ لے جائے گا اور سب مسئلے سلجھائے گا۔ یہ سن کر حسن بہت خوش ہوا اور خدا کا شکر بجا لایا کہ ایسے اچھے دوستوں سے نوازا ہے جو وصل کی راہ آسان کرتے ہیں۔ غریب الوطن پر احسان کرتے ہیں۔
شام کو بندو آیا۔ اپنے ساتھ نعیم کو بھی لایا۔ دونوں نے بائیک پر حسن کو بٹھایا اور ایک دکان میں لے گئے۔ وہاں سے ایک مٹھائی چاکلیٹ نامی خریدی۔ یہ مٹھائی سنہری روپہلی چمکدار پنیوں میں لپٹی تھی اور بہت خوبصورت لگتی تھی۔ حسن بہت خوش ہوا اور کہا: ’’یہ انواع و اقسام کی چاکلیٹ ہائے خشک و تر، گنگا جمنی کاغذوں میں لپٹی، بے شک اس قابل ہیں کہ ان کو محبوبۂ نوخاستہ کو پیش کیا جائے۔ کیوں نہ اس دکان کا پورا مال خرید لیا جائے؟‘‘
یہ سن کر نعیم نے حسن کو چاکلیٹ کی قیمت اس کے ڈبے پر لکھی ہوئی دکھائی جو سات سو روپے تھی۔ یہ دیکھ کر حسن کی بولتی بند ہوئی۔ خواہش عقل کی پابند ہوئی۔
دکان سے اٹھ کر یہ تینوں گل فروش کے پاس گئے اور اس سے گل ہائے رنگا رنگ کا ایک خوبصورت گلدستہ خریدا جو مبلغ آٹھ سو روپے میں پڑا۔ حسن کو یاد آیا اور اس نے دوستوں کو باور کرایا کہ ابھی اس نے زلیخا کے ساتھ فلم دیکھنے جانا ہے اس لیے جیب میں کچھ رقم کا ہونا ضرور ہے۔ اگر سب روپے ابھی خرچ کر دیئے تو بعد میں کیا حال ہو گا؟ بہت رنج و ملال ہو گا۔ مفلسی کے سبب شرماؤں گا، دوسرے کے پیسے پر عیش کرنے کو خلافِ وضع و شرافت پاؤں گا۔
حسن کو فکر مند پایا تو یارانِ محبان نے تسلی دی اور کہا: ’’فکر نہ کر پارٹنر، تیرے کوریئر کے پیسے بھی بچا دیتے ہیں۔ ہم میں سے ایک جا کر یہ چیزیں اس کے گھر ڈیلیور کر دے گا اور اگر تجھے بعد میں پیسوں کی ضرورت پڑی تو بلاجھجک ہم سے لے لینا۔ جب دل کرے واپس کرنا اور نہ بھی کیے تو کوئی بات نہیں۔ پیسے یاروں سے بڑھ کر تھوڑی ہیں؟‘‘
یہ سنا تو وفورِ محبت سے حسن کا دل بھر آیا۔ دوستوں سے کہا: ’’اے برادران، کس منہ سے تمہارا شکریہ ادا کروں کہ تمہارے الفاظ نے میرے ساتھ وہ کیا جو خوش نصیب مُردوں کے ساتھ مسیحا کرتے تھے۔‘‘ یہ کہہ کر خوب رویا۔ دوستوں نے اس کے آنسو پونچھے اور اسے بائیک پر بٹھایا۔ حسن بدرالدین اپنے گھر کو آیا۔
اس رات پورے گیارہ بجے حسن کو محبوبہء طرحدار کا فون آیا۔ حسن نے بے تابانہ فون اٹھایا اور جیسا کہ فون اٹھا کر کہنے کا وطیرہ تھا، کہا: ’’ہے لو؟‘‘
جواب میں مترنم آواز اٹھلا کر بولی: ’’ہیلووو! کرن بول رہی ہوں۔‘‘
معشوقہ دلربا کی آواز سنی تو فرطِ مسرت سے حسن بے قرار ہو گیا، اور بھی دامِ محبت میں گرفتار ہو گیا۔ کہنے لگا: ’’اے یارِ جانی، تمہارا فون آیا، غنچۂ دل کھلکھلایا۔ فون نہیں زخمِ جگر کے لیے مرہم ہے، مشامِ جاں کے لیے مشکِ ازفر ہے۔ میرا حال بعینہ یہ ہے:
کس مصیبت سے بسر ہم شبِ غم کرتے ہیں
رات بھر ہائے صنم ہائے صنم کرتے ہیں
کرن جو حسن کی فصیح و بلیغ زبان سن کر پریشان تھی، یہ آسان سا شعر سن کر خوش ہوئی اور بولی: ’’او مائی گاڈ۔ آپ تو شاعری بھی کرتے ہیں۔ سنا تھا کہ جب پیار ہو جاتا ہے تو اچھا بھلا انسان شاعر بن جاتا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر بڑی معصومیت سے پوچھا: ’’آپ کو کسی سے پیار ہو گیا ہے، حسن بھائی؟‘‘
اس چلبلے پن، شوخی و معصومیت پر حسن پھڑک اٹھا اور بے تاب ہو کر کہا: ’’اے گلبدن خدا گواہ ہے اور صداقتِ مقال آگاہ ہے کہ جب سے تجھے دیکھا ہے میرے دل کا عجب حال ہے، مرغ روح شکارِ۔۔۔ نہیں نہیں یہ نہیں کہنا۔ ہاں تو میرا مطلب ہے تیرِ نگاہ نے گھائل کیا ہے، عشق نے تیری جانب طبیعت کو مائل کیا ہے۔‘‘
وہ گلبن ریاضِ رعنائی ٹھنک کر بولی: ’’اللہ حسن بھائی، ایسی مشکل مشکل باتیں نہ کریں نا، مجھے سمجھ نہیں آتیں۔‘‘
اس بھولپن اور معصومانہ ادا پر حسن مزید عاشقِ زار ہوا، دامِ شوخیء کلام کا گرفتار ہوا۔ مسکرا کر بولا: ’’اچھا تو آسان الفاظ میں بتاتا ہوں کہ تم سے آئیلویُولُو ہو گیا ہے۔ دل سے کوسوں دور خیالِ من و تُو ہو گیا ہے۔ تمہارے عشق میں دن کا چین اور رات کی نیند حرام ہے۔ بجز تمہاری یاد کے کوئی شغل ہے نہ کام ہے۔‘‘
یہ سن کر وہ طاؤسِ زاہد فریب کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ بولی: ’’ایسی باتیں تو ہر کوئی کرتا ہے، کوئی نئی بات نہیں۔ آپ کو تو اکتوبر میں خیال آرہا ہے چاکلیٹ بھیجنے کا، لیکن لوگوں نے تو اس ویلنٹائن ڈے پر اتنے چاکلیٹس اور اتنے بُکیز اور اتنے گفٹس بھیجے کہ میرے کمرے میں رکھنے کی جگہ نہ رہی۔ وہ جو پچھلے محلے میں رہتا ہے نا آفتاب، وہی جس کے ابو نے رولیکس پہنی ہوتی ہے، ہاں تو آفتاب نے تو مجھے نیا موبائل بھیجا تھا۔‘‘
یہ سن کر حسن کے سینے پر سانپ لوٹ گئے۔ تمتما کر بولا: ’’اس ناہنجارو نابکار آفتاب کا میں سر توڑ دوں گا۔‘‘
کرن نے بے نیازی سے کہا: ’’یہ بات تو تین اور لوگوں نے بھی کہی تھی لیکن کسی نے توڑا نہیں۔ اور مجھے تو ویسے بھی آفتاب پسند نہیں۔ ٹھیک ہے اس کے ابو کے پاس لیٹسٹ ماڈل کرولا ہے اور رولیکس ہے اور وہ ہیں بھی سرکاری افسر لیکن خود آفتاب کسی قابل نہیں۔ بی اے میں فیل ہو گیا تھا۔ بھلا کیا نوکری ملے گی اسے؟ نہ بابا، میرے ڈیڈی تو کبھی میرا رشتہ اسے نہ دیں گے۔‘‘
یہ بات سنی تو حسن کے دل میں امید پیدا ہوئی۔ شوخی سے بولا: ’’اور میرے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘
وہ حسینہ پری پیکر اٹھلا کر بولی: ’’مجھے انجینئر پسند ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر کھلکھلا کر ہنسی اور فون بند کر دیا۔ حسن بدرالدین خوشی کے مارے جامے میں پھولا نہ سمایا۔ جنابِ باری تعالیٰ کا شکر بجا لایا۔

*۔۔۔*۔۔۔*

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۹

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!