صرف ارسلان کا ارادۂ عقد ہی نہیں تھا جو حسن کے سر پر سوار تھا، بلکہ اور بھی کئی معاملوں کا خلفشار تھا۔ سب سے پہلے تو وہ چھپ چھپا کر نسیمہ کے گھر گیا۔ بنّے بھائی اس وقت گھر نہیں تھے۔ وہاں گیا تو دل کو دھچکا لگا۔ گھر میں غربت کا راج تھا۔ کونے کونے سے عیاں رنج و ملال تھا، نہ مال تھا نہ منال تھا۔ بے چاری نسیمہ اسے دیکھ کر آٹھ آٹھ آنسو روئی اور کہا: ’’شوہر انسانیت کا سلوک کرے تو عورت غربت بھوک سب کاٹ سکتی ہے لیکن یہاں تو نہ صرف پیسے کی تنگی ہے بلکہ لڑائی جھگڑا، مار پیٹ بھی سِوا ہے۔ بچہ اتنا چھوٹا ہے، اسے چھوڑ کر میں نوکری بھی نہیں کر سکتی۔‘‘
حسن نے تسلی دی، بہت تشفی کی۔ کچھ رقم نسیمہ کے حوالے کی اور مزید کا وعدہ کیا۔ بوجھل دل لے کر حسن گھر واپس آیا۔
دوسرا کام اس نے یہ کیا کہ بمطابق قول و وعدہ کنیزِ بے تمیز کو دو ہزار روپے دیئے اور کہا:
’’اب اس مہرطلعت و گلفام قوت القلوب کا فون نمبر کہیں سے ڈھونڈ لاؤ اور مجھ پر احسانِ بے پایاں فرماؤ۔‘‘
اس نے آنکھیں مٹکا کے کہا: ’’ڈھونڈنے کی کیا ضرورت ہے؟ ابھی لے لیں مجھ سے۔‘‘
یہ کہہ کر اپنا فون نکالا اور حسن کو نمبر لکھوا دیا۔ حسن کی جان میں جان آئی اور وفورِ خوشی سے آنکھ ڈبڈبائی، مگر سنبھل کے بات یوں بنائی: ’’اب اس ماہ لقا کے حضور میں میری خوب تعریفیں کرو۔ عقد کی راہ آسان کرو اور اس کا اجر خدا سے لو۔‘‘
کنیز نے وعدہ اور اقرار کیا، حسن بدرالدین نے قرار کیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*