اگلے دن صبح دس بجے ماڈل ٹاؤن کے مکان کے پھاٹک پر ایک تیز رفتار بائیک آکر رکی۔ اس کا سوار اس قدر عجلت میں اس پر سے اترا کہ بائیک گر پڑی۔ لیکن اس نے بائیک پر دوسری نظر نہ ڈالی اور دھاڑ سے پھاٹک کھول کر گرتا پڑتا اندر بھاگا۔
نانی اور زلیخا برآمدے میں تخت پر بیٹھیں اون کا گولا بنا رہی تھیں۔ پھاٹک کی آواز سے چونکیں۔ نانی نے گھبرا کر کہا: ’’اے نعیم کیا ہو گیا بچے؟ ہوا کے گھوڑے پر سوار کہاں بھاگا جا رہا ہے؟‘‘
نعیم پھسلتے پھسلتے بچا۔ ستون کا سہارا لے کر خود کو سیدھا کیا اور لڑکھڑائے ہوئے لہجے میں بولا: ’’حسن۔۔۔ حسن کہاں ہے؟‘‘
نانی بولیں: ’’کمرے میں ہے۔‘‘
یہ کہہ کر حسن کو پکارا: ’’حسن۔۔۔ اے حسن، بیٹا تیرا دوست آیا ہے۔‘‘
زلیخا نے نعیم کو دیکھتے ہوئے کہا: ’’خیر تو ہے؟ اتنی جلدی میں کیوں ہو؟‘‘
نعیم نے پھولی ہوئی سانس کے ساتھ کہا: ’’وہ…..وہ….. رزلٹ آگیا ہے۔‘‘
نانی اچھل پڑیں۔ نہال ہو کر بولیں: ’’اے ماشا اللہ! میرے بچے کا رزلٹ آگیا۔ جلدی سے منّے کو بلا، زلیخا۔ مٹھائی منگواؤں۔ پورے خاندان میں بانٹوں گی۔‘‘
لیکن زلیخا نانی کی بات نہیں سن رہی تھی۔ وہ غور سے نعیم کو دیکھ رہی تھی۔ نعیم کو دیکھتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی اور اندیشے سے پوچھا: ’’کیا رزلٹ آیا ہے حسن کا؟‘‘
’’وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ حسن۔۔۔‘‘ نعیم کا سانس اب بھی پھول رہا تھا۔
اتنے میں اس کی نظر حسن پر پڑی جو برآمدے کے دروازے میں کھڑا تھا۔ وہ نعیم کی آواز سن کر کمرے سے نکلا تھا۔ نعیم نے بے بس نظروں سے حسن کو دیکھا اور روہانسے ہو کر کہا: ’’حسن……حسن، توُ فیل ہو گیا یار۔‘‘
چند لمحوں کے لیے سناٹا چھا گیا۔ سب لوگ دم بخود کھڑے نعیم کو دیکھتے رہے۔ پھر اچانک نانی نے ایک دلدوز چیخ ماری اور پٹ سے تخت پر گر کر بے ہوش ہو گئیں۔
*۔۔۔*۔۔۔*
(باقی آئندہ)