الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۰
(سارہ قیوم)
گیارہویں رات
حسن بدرالدین نے جو ارسلان نامی مہمان کو زلیخا کو تاکتے دیکھا تو چونکا، کان کھڑے ہوئے۔ دل میں سوچا یہ کیا ماجرائےعجیب ہے، داستانِ غریب ہے۔ کون ہے یہ شخص جو اس قدربدبخت، ناہنجار، بداعمال ،بدکردار اور بے ہودہ ہے کہ پرائی بہو بیٹیوں کو تاکتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کوئی ہردیگی چمچہ ہے۔ اس کی یہ حرکت شریف زادوں اور اہلِ آبرو کی وضع کے خلاف ہے۔ یہ آنکھ لڑانے کی کوشش کون سا انصاف ہے؟ ہر چند کہ حسن کی غیرت بے حد جوش میں آتی تھی، بہت طیش کھاتی تھی مگر ممانی کے سامنے کچھ بولنا محال تھا، وہ بزرگ اور حسن خورد سال تھا۔
کچھ دیر تو حسن بیٹھا برداشت کرتا رہا لیکن جب ارسلان کی گستاخی و شیخی مزاجی عقلِ سلیم سے منزلوں دور ہوئی تو حسن کی طبیعت بالکل نفور ہوئی اور وہ اٹھ کر باورچی خانے میں جا کھڑا ہوا اور ٹھنڈا پانی پی کر دماغ ٹھنڈا کرنے لگا۔ زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ زلیخا بھی چائے کے برتن اٹھائے آ پہنچی۔
’’تم کیوں اٹھ کر آگئے؟‘‘ اس نے چائے کے برتن رکھتے ہوئے پوچھا۔
حسن نے خفگی سے پوچھا: ’’یہ کون کندۂ ناتراش ہے، تمیزداری جس کی پاش پاش ہے؟‘‘
زلیخا نے کہا: ’’ماما کا دور کا بھانجا ہے۔ تمہیں پسند نہیں آیا؟‘‘
حسن ناراض ہو کر بولا: ’’مجھے اس کی صورت سے نفرت ہے۔ میری اور اس سفلہ منش، دشمنِ عقل کی کون صحبت ہے؟‘‘
زلیخا حیران ہو کر بولی: ’’ارے ارے! اتنا غصہ کیوں؟‘‘
حسن نے کہا: ’’یہ شخص بدتمیز ہے۔ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر تمہیں دیکھتا تھا۔ ذرا شرم نہ کرتا تھا۔ اب تم ہی بتاؤ کہ اس کی صورت سے بندہ کیوں نہ بے زار ہو، اس کی صحبت کیوں کرنہ ناگوار ہو؟‘‘
زلیخا ہنسنے لگی اور بولی: ’’.Look who is talking، یہ تم کہہ رہے ہو جو ہر راہ جاتی لڑکی پر فدا ہو جاتے ہو؟ اور وہ کرن والا معاملہ تو بڑا recent ہے۔‘‘
حسن سینہ پھلا کر بولا: ’’میں جو کرتا ہوں ڈنکے کی چوٹ پر کرتا ہوں۔ چھپ کر وار نہیں کرتا ہوں، عقد کا ارادہ رکھتا ہوں۔ شکر ہے کہ میرا ظاہر و باطن یکساں ہے، نہ خرقۂ سالوس دربر، نہ عمامۂ زور برسر۔ لیکن اس شخص کا کیا ارادہ ہے، کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے۔‘‘
یہ سن کر زلیخا سوچ میں پڑ گئی۔ پھر بولی: ’’سمجھ تو مجھے بھی نہیں آتا لیکن صاف بتاؤں مجھے یہ اچھا لگتا ہے۔ میں سوچتی ہوں بنّے بھائی کے لائے اوٹ پٹانگ رشتوں سے بہتر ہے اسی کو consider کر لوں۔ ماما بھی اس کے حق میں ہیں۔ پڑھا لکھا بھی ہے، نوکری بھی اچھی ہے اور پھر۔۔۔‘‘ زلیخا ہچکچائی۔ ’’اور پھر مجھ میں interested بھی ہے۔ اسے میرے موٹے ہونے سے اور سانولے ہونے سے فرق نہیں پڑتا۔‘‘حسن نے یہ بات سنی تو کہا: ’’ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے، پڑھے لکھے کو فارسی کیا ہے۔ لگے ہاتھوں اس سے پوچھ لو کہ عشق کے بارے میں اس کا کیا خیال ہے، کیوں عقد کا ارادہ محال ہے؟ دم کے دم میں معلوم ہو جائے گا کہ دلبر ہے یا بے وفا ہے، دل میں خلوص ہے یا جفا ہے؟‘‘
زلیخا سوچ میں پڑ گئی، پھر بولی: ’’you know what? میرا خیال ہے تم ٹھیک کہتے ہو یہ مجھے فون پر اچھے اچھے میسجز بھیجتا ہے، کبھی کافی کی دعوت دیتا ہے کبھی سینما کی۔ لیکن اس سے آگے نہیں بڑھتا۔ میرا خیال ہے اب مجھے صاف صاف اس سے پوچھ لینا چاہیے کہ اس کا کیا ارادہ ہے۔ لیکن کیسے پوچھوں؟ گھر پر سب لوگ ہوتے ہیں اور باہر میں اس کے ساتھ جانا نہیں چاہتی۔‘‘
حسن نے کہا: ’’میں پوچھ لیتا ہوں۔ دیکھتے ہیں کیا رنگ لاتی ہے گلہری۔‘‘
زلیخا نے سوچتے ہوئے کہا: ’’اس نے مجھے امپوریم مال میں فلم دیکھنے کی دعوت دی ہے۔ تم ساتھ چلو تو میں چلتی ہوں۔‘‘
اور یوں طے پایا کہ زلیخا اور حسن اگلے اتوار اکٹھے فلم دیکھنے جائیں گے، ارسلان سے دل کی بات اگلوائیں گے۔
*۔۔۔*۔۔۔*