سورج کی روشن کرنیں پردوں کے کناروں سے بڑی شدت سے اُس کے کمرے میں داخل ہورہی تھیں مگر ابس کی نیند میں ذرا خلل نہ آیا۔
کچھ ہی دیر میں ملازم ڈرتے ڈرتے کمرے میں داخل ہوا ”حاشر بابو اُٹھ جائیے” وہ آہستہ سے بولا۔ ”حاشر بابو۔۔۔ حاشر بابو”
مگر وہ تو جیسے گھوڑے، ہاتھی سب کچھ بیچ کر سو رہا تھا۔ ملازم بڑی مایوسی چہرے پر لیے پھر سے مڑا، کمرے میں یہ اُس کا کوئی چوتھا چکر ہوگا۔ دروزے تک پہنچ کر یاد پیا کہ بیگم صاحبہ نے جاتے ہوئے درخواست کی تھی ”فیکے بھائی حاشر کو میں بس آپ کی ذمہ داری پر چھوڑ کر جارہی ہوں، آپ تو جانتے ہیں یہ کِس قدر لاپرواہ لڑکا ہے، اِس کا خاص خیال رکھیے گا اور کھانے پینے میں ذرا دیری نہ ہو۔” اپنی وفاداری اور نمک حلالی کے چکر میں وہ پھر سے مڑا اور اب ذرا روب دار لہجے میں آواز دی: ”حاشر بابو اُٹھ جائیے، ناشتے کے لیے جگا رہا تھا مگر اب دوپہر کے کھانے کا وقت ہوچکا ہے۔” حاشر نے ذرا سی کروٹ بدلی۔
”ابھی اُٹھتا ہوں۔۔۔ آپ جائیے۔”
”اب اُٹھ جائیے گا خدا کے لیے” اُس نے غصے سے درخواست کی۔ حاشر فیکے کے کہنے پر تو کبھی نہ اُٹھتا مگر دوبارہ آنکھیں بند کرتے ہوئے اُسے ایک دَم خیال آیا کہ اُس نے تو ماں سے وعدہ کیا تھا کہ وقت پر سارے کام کرے گا اور ابھی ماں باپ کو گئے ہوئے ایک دن نہیں گزرا کہ اُس نے یونیورسٹی سے بھی چھٹی کرلی اور ناشتہ بھی نہیں کیا۔
اچانک سے خود کو ملامت کرتے ہوئے ٹائم دیکھا ”کیا دو بج چکے ہیں، مجھے کسی نے جگایا کیوں نہیں” اپنی غلطی پر بھی برُے حکمران کی طرح دوسروں پر چلاتے ہوئے تیزی سے تیار ہونے لگا، کپڑے بدلے، گھڑی باندھی، جوتے پہنے، موبائل جیب میں ڈالا اور بھاگ کر یونیورسٹی کے لیے نکل گیا۔ ”حاشر بابو کھانا تو کھالیجیے” فیکے نے بار بار بُلایا ”آپ کھا لیجیے بابا جی! میں یونیورسٹی میں کھالوں گا، مجھے دیر ہورہی ہے” گھاڑی کی چابی ہلاتے ہوئے وہ گھر سے نکل گیا۔
…٭…
”اتنا منہ کیوں لٹکایا ہوا ہے؟” عثمان نے حاشر کو خاموش دیکھ کر سوال کیا۔
”ماما اور پاپا رات کو ہی نیویارک گئے ہیں اور میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ ہر کام وقت پر پوری ذمہ داری سے کروں گا مگر پہلے ہی دن نہ میں نے کھانا کھایا اور نہ ہی وقت پر یونیورسٹی آیا” ”ہاہا ہا بھائی تُو اتنا ذمہ دار کب سے ہوگیا؟” عثمان نے طنز کی۔ حاشر نے منہ بسورا۔
”ویسے اُن وعدوں کا کیا جو تُو روز آتی جاتی لڑکیوں سے کرتا ہے” عثمان نے پھر سے طنز کی ”خود تو تجھے کوئی لڑکی منہ نہیں لگاتی، چلا ہے میری گرل فرینڈز گننے” حاشر نے ہنستے ہوئے اپنا غبار نکالا۔
”اچھا اچھا بس خدا نے خوبصورتی دی ہے تو اتنا ناز نہ کر” عثمان نے گھورتے ہوئے کہا۔
”ہاہاہا صرف خوبصورتی نہیں سب کچھ دیا ہے” حاشر نے ہنستے ہوئے عثمان کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
”اچھا چل چھوڑ ان باتوں کو آنٹی اور انکل کے جانے کی خوشی میں ہمیں پارٹی ہی دے دے” عثمان نے کیفے سے نکلتے ہوئے کہا۔
”یہ کونسی پارٹی ہوتی ہے؟” حاشر نے حیران ہوکر پوچھا ویسے تو ٹھیک کہہ رہا ہے، ایک پارٹی رکھتے ہیں میرا موڈ بھی بدل جائے گا۔” حاشر نے سوچتے ہوئے کہا۔
”ہاں تو Done کرو” عثمان نے لقمہ دیا۔
”جگہ Decide کرو آج ہی پارٹی کرتے ہیں” حاشر نے حکم دیا ”جگہ Decide کرنے کی کیا ضرورت ہے تیرے گھر پر کرتے ہیں نا، اب انکل آنٹی تو جاچکے ہیں تو اکیلا ہی گھر پر ہوتا ہے” عثمان نے مشورہ دیا۔
”نہیں نہیں یار گھر پر نہیں” حاشر نے ڈرتے ہوئے کہا۔
”یار مزا آئے گا حاشر! اب کس بات کی پابندی ہے، آنٹی انکل تو جاچکے ہیں” عثمان نے insist کیا۔
”اچھا چلو ٹھیک ہے” حاشر نے آہستہ سے کہا۔
”جاکر تیاری کر ہم رات تک پہنچ جائیں گے” عثمان نے پرجوش انداز میں کہا۔
”Ok” حاشر نے جواب دیا اور اپنی گاڑی کی طرف بڑھا۔
…٭…
ماں سبزی بنا رہی تھی کہ اچانک خیال آیا ”سعدیہ کیا کررہی ہو؟”
”کچھ نہیں اماں۔ کچھ بھی نہیں” اُس نے ماں کی آواز سن کر تیزی سے اپنے منگیتر کی تصویر الماری کے نیچے والے خانے میں چھپا دی۔
”میری بات سُن ذرا” ماں نے پھر سے آواز دی ”ہاں ہاں ابھی آئی” تیز تیز جوتا پہن کر وہ ماں کی طرف بھاگی۔
”ذرا اپنے ابا کو فون لگا اور پوچھ تیرے ماموں نے تیری فیس کے پیسے بھیج دیے ہیں” ماں نے راز داری سے سعدیہ کو حکم دیا۔
”اماں بھیج دیں گے وہ ہر دفعہ تو بھیجتے ہیں اس بار بھی بھیج دیں گے۔”
”بیٹا تو پوچھ تو سہی۔”
”اماں ابا دوکان پر فون اُٹھانے سے کتراتا ہے کہ کہیں وہ فون پر لگا رہے اور گاہک آکر اُس کی چھوٹی سی دوکان سے چیزیں نہ اُٹھالیں۔” اُس نے اداسی سے کہا۔
”ذرا سی بات کرنے سے کوئی اُس کی قیمتی چیزیں نہیں اُٹھائے گا۔” اُس نے طنز کی اور غصے سے گھورنے لگی سعدیہ نے ماں کا گرم لہجہ دیکھ کر فون ملا دیا۔
”السلام و علیکم ابا! وہ ذرا اماں پوچھ رہی تھی ماموں نے میری فیس کے پیسے بھیج دیے؟” اُس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
”ہاں بھیج دیے ہیں، رات کو لے آؤں گا۔” تیزی سے جواب دیتے ہوئے باپ نے فون بند کردیا۔
”دیکھ لے اماں ابا نے ذرا سا جواب دے کر غصے سے فون بند کر دیا ہے۔”
”ارے وہ غصے سے نہیں کرتا، پیسے کٹ جانے کے ڈر سے کرتا ہے” ماں طنزیہ مسکرائی۔
سعدیہ نے آنکھیں مٹکائیں اور کمرے میں جاکر کتاب پڑھنے لگی۔
…٭…
حاشر مختلف کھانے، پینے کی چیزوں کا آرڈر دے کر فارغ ہوا ”بابا جی کسی قسم کی کوئی کمی نہیں ہونی چاہیے۔ اور میرا کمرہ بھی سیٹ کروا دیجیے”
”جی حاشر بابو آپ بالکل فکر نہ کریں” فیکے نے بڑے ادب سے جواب دیا۔
سب کچھ تیار پڑا تھا اور حاشر تیار کھڑا بڑے غرور سے آئینہ دیکھ رہا تھا، وہ اپنے آپ کو سب سے مختلف، خوبصورت اور قسمت والا تصور کرتا تھا، اُس کا یوں اپنے آپ پر ناز کرنا کچھ غلط بھی نہ تھا، وہ بادشاہوں کی طرح زندگی گزار رہا تھا، منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوا تھا اور دِکھنے میں بھی بہت خوبصورت، دراز قد اور گوری رنگت کا نوجوان تھا، اُس کے کپڑے اُس کے سارے دوستوں میں سب سے مختلف، نفیس اور ماڈرن ہوتے، اخلاق کا بھی بہت اچھا تھا مگر جس ماحول میں وہ پلا بڑا تھا وہاں لڑکیوں اور لڑکوں کی دوستی ایک معمولی بات تھی۔
آہستہ آہستہ سارے دوست آنے اور حاشر بڑی خوش دلی سے اُن کا استقبال کررہا تھا، میوزک کی آواز بڑھنے لگی، شور شرابہ ہونے لگا وہ سب دوست مستیوں میں مصروف تھے کہ بابا فیکہ سب کچھ میز پر لگائے بڑے افسوس سے انہیں دیکھ رہا تھا، اُسے یہ ماحول بالکل اچھا نہیں لگ رہا تھا ”پتہ نہیں آج کل کے بچوں کو کیا ہوگیا ہے” وہ افسوس کرتے ہوئے بلبلایا۔
”کھانا لگ گیا ہے بیٹا” فیکے نے حاشر سے کہا۔
”جی بابا ہم ابھی آئے” حاشر نے بڑے احترام سے جواب دیا۔
کھانا کھانے کے بعد وہ سب ڈانس کرنے لگے، لائٹس off کردی گئیں، چھوٹی چھوٹی روشنیاں تیزی سے کمرے میں دوڑنے لگیں۔
فیکہ ہاتھ باندھے ہوئے کونے میں کھڑا ان سب کے چلے جانے کا انتظار کررہا تھا، وہ بار بار گھڑی دیکھتا رات کا 1:30 بج چکا تھا، فیکے نے تھک کر تہجد کی نماز پڑھی اور پھر سے آکر وہاں کھڑا ہوگیا یہ سوچ کر کہ بچوں کو کچھ چاہیے نہ ہو مگر بھلائی کا زمانہ کہاں ہے۔
عثمان کو اُس کا بار بار وہاں آنا بہت برُا لگ رہا تھا ”یار یہ اپنے بابا جی کو تو بھیج دے، یہ کیا ہماری رکھوالی کررہے ہیں” عثمان نے غصے سے کہا۔
”ایسا کچھ نہیں ہے یار! وہ بیچارے تو ہمارے لیے کھڑے ہیں کہ ہمیں کسی چیز کی ضرورت نہ ہو” حاشر نے گھورتے ہوئے جواب دیا۔
”تو اُنہیں کہہ دے کہ سو جائیں، اس عمر میں اتنا جاگنا کوئی اچھی بات ہے” عثمان طنزیہ مسکرانے لگا حاشر کو اُس کی بات کافی برُی لگی اُس نے اسی وقت پارٹی روک کر سب کو خدا حافظ کہہ دیا۔
…٭…
”بابا آپ سو جاتے” حاشر نے کورٹ اُتارتے ہوئے کہا۔
”نہیں بیٹا میں اپنے بچوں کو اس طرح چھوڑ کر کیسے سو سکتا تھا۔”
”ارے بھئی ہم کیا چھوٹے بچے ہیں” حاشر نے مسکرا کر کہا۔
”بیٹا ایک بات کہوں؟”
”جی فرمائیے۔”
”اچھے اور نیک لوگوں کی صحبت میں رہا کرو، مجھے تیرے دوست مجھے ایک آنکھ نہیں بھاگے۔” فیکے نے نصیحت کرتے ہوئے کہا۔
”نہیں یہ بھی اچھے ہیں بابا، بس ذرا…” حاشر نے ہچکچاتے ہوئے جواب دیا۔
”نہیں بیٹا تیرے باپ کو اچھے اور برُے لوگوں کی بڑی پہچان ہوا کرتی تھی، بس اُس کے اچھے اور نیک دوست ہی اُس کی کامیابیوں کی سیڑھیاں بنے مگر تمہیں تو ذرا پہچان نہیں اچھے برُے لوگوں کی اور پھر کہتے ہو میں بڑا ہوگیا ہوں” فیکے نے حاشر کے منہ پر ہلکی سی تھپکی مارتے ہوئے کہا۔
”اچھا بابا” حاشر نے بڑے احترام سے فیکے کی بات سُنی اور پھر شرمندگی سے سر کھجاتے ہوئے جواب دیا۔ ”چلیں اب آپ سو جائیے” اُس نے فیکے کے کندھے پر ہاتھ پھیلائے اور احتراماً اُسے کمرے تک چھوڑا اور پھر خود سونے کی تیاری کرنے لگا۔
…٭…