بے زار ۔ حدیث کہانی


بے زار ۔ حدیث کہانی


سید ثمر احمد

’’میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں حضرت، اسے بچالیں۔ وہ تباہ ہوجائے گا۔ میرا ایک ہی بچہ ہے۔ میری آنکھوں کا نور، میرے دل کا چین۔ وہ ان راستوں پر جارہا ہے جن کی منزل دنیا و آخرت کی تباہی کے علاوہ کچھ نہیں۔ میری نسل یوں میری آنکھوں کے سامنے گمراہی اور آگ کی دلدل میں اتر جائے گی کبھی نہ سوچا تھا۔ وہ دین کے نام سے بے زار ہے۔ اس کے سامنے دین دار آجائیں تو ماتھے پہ تیوریاں چڑھ جاتی ہیں۔ بہت بھیانک ردعمل دیتا ہے۔ جب سمجھانے کی بات کرو بدتمیزی پہ اتر آتا ہے۔ داڑھی اور حجاب سے اسے چڑ ہے۔ جہاں دیکھتا ہے ایسے پھٹتا ہے جیسے صدیوں کا ادھار کھائے بیٹھا ہو۔ اللہ رسول کا نام سنتے ہی منہ پھیر لیتا ہے۔ جھنجھلاہٹ اس قدر جیسے کسی حبس زدہ پنجرے میں قید ہو، توڑے اور نکل جائے۔ خدا جانتا ہے میں کیسے گھٹتا ہوں، کیسے سسکتا ہوں۔ میرے تو تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ میری اولاد خدا سے بیگانہ ہوجائے گی۔ بیگ صاحب! میں اپنے آباؤ اجداد کو کیا منہ دکھاں گا جہاں نسلوں تک خدا کے اولیا موجود رہے۔ یہ کم بخت پیدا ہوتے ہی مر کیوں نہ گیا، میں ہی مار دیتا۔ میں رسول اللہؐ کا سامنا کیسے کروں گا، میں خدا کے آگے کیسے جاؤں گا۔ میں ہر جمعہ کے خطبہ میں لوگوں کو تبلیغ کرتا ہوں، لوگ مجھ سے مسائل پوچھنے آتے ہیں، میرے گھر کی خواتین کا سخت پردہ علاقہ بھر میں مثال ہے۔ ڈیلیوری کے لیے مری زوجہ کو سخت دردِ زہ تھی لیکن انہیں ہسپتال کے لیے اس وقت تک نہ نکالا گیا جب تک ہری پور میں تانگہ آکے ہمارے گھر کے سامنے کھڑا نہ ہوگیا اور اس کے سب طرف اونچی اونچی چادریں تن نہ گئیں، ادھر اس نیک پروین کا صبر ایسا کہ دنیا ایک عرصے تک مثالیں دیتی رہی ، وہ تڑپ رہی تھی لیکن مجال ہے جو ایک قدم میرے حکم کے خلاف گھر سے باہر نکالا ہو۔ ‘‘ مولوی فضل دین بلاتکان جذباتی انداز میں بولے چلا جارہا تھا جب کہ بیگ صاحب پوری توجہ سے اسے سن رہے تھے۔



’’اس منحوس کو شروع سے نصیحت کی کہ دین کے رستے پہ چلے۔ ایک ایک شے کا دھیان رکھا۔ ہوش سنبھالتے ہی مسجد لے کر گیا، گھر میں شیطان ٹی وی کو گھسنے نہیں دیا۔ ریڈیو تھا، اس کو بھی توڑ ڈالا کہ ابلیسی راگ کہیں کانوں میں نہ پڑ جائیں۔ کھانے کے لیے ڈھیروں پیسے دیے، جہاں جانا چاہتا کھلی اجازت دی۔ تین بہنیں نہ کھاتیں ، پہلے یہ کھاتا۔ یہ کہتا بس میں نہیں جاؤں گا، میں رکشہ کراکے دیتا۔ آٹھویں میں موٹرسائیکل کی خواہش کی، میں نے فوراً لا کے دے دی۔ ہر جائز خواہش پوری کی۔ پر یہ صلہ ملنا تھا، ہائے رے قسمت۔ آخر کو لکھا ہی سامنے آتا ہے۔ اس کے کرتوتوں سے میرے منہ پہ تو سیاہی ملی گئی بیگ صاحب۔ کبھی کسی لڑکی کے پیچھے، کبھی کسی جوئے کے اڈے پہ، کبھی آوارہ دوستوں کے ساتھ سوٹے لگاتے ہوئے۔ مجھے تو شک ہے کہ یہ شراب بھی پیتا ہوگا، نشئی بھی بن گیا ہے۔ لوگ اب میرے وعظ پہ زیرِ لب مسکراتے بھی دِکھتے ہیں۔ نہ لوگوں کے سامنے اسے بے ہدایتا کہہ سکتا ہوں، اولاد جو ہوئی، نہ کوئی ڈھنگ کا مشورہ دینے کے قابل ہوتا ہوں۔ اب تو یہی کہتا ہوں کہ جب تک یقین نہ ہوجائے، اولاد کو گھروں میں بند کرکے رکھو۔ جب صحیح غلط کی تمیز آجائے اور یقین ہوجائے تو بھی نظروں کے سامنے باہر نکالو۔ کتنا یقین تھا، کیسے اعتماد سے کہا کرتا تھا میں کہ دیکھنا اولاد کی تربیت کیسے کی جاتی ہے۔ کیسے میں لوگوں کی نکمی اولاد پہ تنقید کیا کرتا تھا، کیسے لوگ دبک کے میرے سامنے اف تک کرسکتے تھے۔ لیکن اس بدذات نے کمینہ پن کی ہر حد پار کر دی اور میری ناک کٹوا دی۔ اب جسارت اتنی پیدا ہوگئی ہے کہ سوالات اٹھاتا ہے، چیلنج کرتا ہے۔ شعائرِ دین کا مذاق اڑاتا ہے۔ گریجوایشن کر لی ہے مر مر کے۔ پتا نہیں کن ذلیل فاسقوں میں بیٹھتا ہے کہ نماز کا نہ روزے کا بلکہ کہتا ہے کہ ان کا فائدہ کیا؟ میری زندگی میری مرضی۔ مجھے گھٹن محسوس ہوتی ہے ان مذہبی باتوں سے۔ اب آپ ہی بتائیں میں کروں تو کیا؟ اللہ کا دیا سب کچھ ہے، زمینیں ہیں، جائیداد ہے، اجداد کی مسجد ہے۔آپ کی تعریف سنی تو چلاآیا۔ ‘‘مولوی فضل دین اب روہانسا ہوگیا تھا۔ بول بول کے تھک بھی گیا تھا۔ پریشانی اس کے چہرے سے ہویدا تھی۔ 
حشمت بیگ انہماک سے پوری بات سنتے رہے۔ یہ ان کی عادت تھی۔ ہر سائل کو یہی توجہ دیا کرتے، نہ ٹوکتے نہ روکتے۔ جب وہ اپنے دل کی بات بھرپور کہہ لیتا تو پھر اس پر تبصرہ کرتے۔ مزید کریدنے کے لیے گر ضروی ہوتا تو کچھ استفسار کرتے ورنہ اپنی سمجھ بیان کردیا کرتے۔ نصیحت کرنا ان کا مزاج نہ تھا۔ ویسے بھی نصیحتوں سے لوگ چڑ جاتے ہیں۔ اپنا مشورہ دیتے، چاہے تو کوئی مان لے چاہے تو نہ مانے۔ ہر ایک پہ صحیح اگر واضح ہوگیا ہے تو فائدہ خود اٹھانا ہے اور نقصان بھی خود۔ رسوائی یا عظیم تر کام یابی یہاں بھی اور وہاں بھی۔ بڑے استاد کا مزاج یہی ہوا کرتا ہے۔ کوئی کسی کو زبردستی تو کہیں چلا نہیں سکتا۔ ناہی بات دل میں ڈال سکتا ہے۔ وہ بس ابلاغ کرسکتا ہے، یہی اس کی ذمہ داری ہے۔ قانون بنانا تو اتھارٹیز کی ذمہ ہوتا ہے افراد کا نہیں۔ خود خدا کا انداز دیکھیے تو وہ بھی یہی نظر آتا ہے۔ وہ اپنی طرف زبردستی آنے کے لیے مجبور ہی نہیں کرتا۔ وہ عقل، فہم اور شعور کی سطح پر روشن دلائل قائم کرتا ہے اور پھر بے نیاز ہوکے چھوڑ دیتا ہے کہ ہمارا کیا فائدہ کیا نقصان، سب کچھ تمہارا ہی تو ہے۔
’’فضل دین بھائی کیا آپ نے کبھی بچپن میں نماز کے لیے صائم کو مارا؟‘‘ حشمت بیگ سوالات کی ضرورت محسوس کررہے تھے۔
’’جی! کیوں کہ اس کا مزاج بنانے کے لیے ضروری تھا۔ جیسے ہمارے نبیؐ نے فرمایا کہ دس سال بعد نماز نہ پڑھنے پر بچے کو مارو۔‘‘ فضل دین نے جواب دیا۔
’’اچھا فضل بھائی آپ نے کہا کہ صائم کو بچیوں پر ترجیح دی جاتی تھی۔ ایسا کس نیت کے ساتھ آپ کیا کرتے؟‘‘ بیگ صاحب نے دوسرا سوال کیا۔
’’سر جی! یہ اکلوتا بیٹا ہے، گھر کا سربراہ اسی کو بننا تھا، باہر دنیا کے سامنے اپنے گھر والوں کی ڈھال اسی کو ٹھہرنا تھا۔ بس یہی سوچ کر میں نے بچپن سے اسے ترجیح دی۔‘‘ مولوی فضل دین چپ ہوا تو حشمت بیگ نے پرسوچ انداز میں اس سے پوچھا۔
’’آپ نے بیٹے کی جیب نوٹوں سے بھر دی۔ آٹھویں کلاس میں موٹر سائیکل لے دی۔ جیسے اس نے منہ سے نکالا آپ نے پورا کردیا۔ کیوں؟‘‘



’’کس کی خواہش نہیں ہوتی صاحب؟ ہم نے چاہا کہ اسے کسی طرح کی حسرت نہ رہ جائے۔ یہ ہمارا احسان مند ہوگا، ہمارا تابع بنے لیکن پر اس نے تو لٹیا ہی ڈبو دی۔‘‘ آخری بات پر مولوی فضل دین کا لہجہ پھر سے روہانسا ہوگیا۔
’’کیا جب یہ ٹین ایج میں آیا تو آپ نے اس کے دوستوں کے ساتھ ملاقات جاری کی؟‘‘ کچھ دیر توقف کے بعد بیگ صاحب نے اس سے پوچھا۔
’’سال میں ایک آدھ دفعہ مل لیتا تھا۔ مجھے وہ آوارہ منش لگتے ۔ میں اسے سمجھاتا تھا کہ یہ لوگ اچھے نہیں ان سے نہ ملا کر۔ پھر ٹائم کہا ں ملتا تھا کہ اس کے فضول لفنگوں سے ملتا پھرتا۔‘‘
’’اگر آپ اکتائے نہ ہوں تو کچھ اور سوال ہیں تاکہ مجھے کوئی مشورہ دینے میں آسانی ہو۔‘‘
’’بیگ صاحب بس آپ اسے سمجھائیں۔ میری تو باتوں میں وہ نہیں آتا‘‘ مولوی صاحب نے بے چینی سے پہلو بدلتے ہوئے کہا۔
’’مل بھی لیں گے، پہلے بیماری کی تشخیص تو ہوجائے فضل بھائی۔ یہ بتائیے کبھی اس کے ہاتھ پہ ہاتھ مار کے قہقہہ لگایا؟‘‘بیگ صاحب نے اسے تسلی دی اور اگلا سوال کیا۔
’’حضرت !یہ کیسا سوال ہے؟ میں باپ ہوں، یہ نالائق جتنا دبتا ہے ایسا کروں تو اس سے بھی جائے۔‘‘
’’اس سے بھی جائے گا مولوی فضل دین صاحب، اس سے بھی جائے گا۔ گھر کے کاموں میں مشورہ لیتے ہیں؟‘‘ فضل دین یہ جوابی تبصرہ سن کے تلملائے تھے۔

Loading

Read Previous

امجد صابری انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Read Next

قرنطینہ ڈائری ۔ پہلا دن

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!