الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱

الف لیلہ۲۰۱۸ء داستان 

سارہ قیوم 

قسط نمبر 1: 

راویانِ روایاتِ سلاطین سے راوی ہے کہ زمانِ پاستان میں ایک تاجدارِ خاقان کلاہ راج کیا کرتا تھا۔ نام اس کا سلطان شہریار تھا، امورِ سلطنت میں آزمودہ کار تھا۔ بے حد غریب پرور، دوست دشمن نواز، انصاف میں نوشیروانِ ثانی، شجاعت میں غیرت کا بانی۔اس کی بادشاہت میں شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے، چھوٹے بڑے عیش کرتے تھے۔ محتاج کا نام نہ تھا، ادنیٰ سے ادنیٰ اس کی بادشاہی کا دم بھرتا تھا۔ 

خدا کا کرنا یہ ہوا کہ سلطان شہریار عالی وقار کی ملکہ نے ناموس کو دھبّا لگایا اور بادشاہ سے بے وفائی کرکے شیشۂ پارسائی و وفاداری کو چکنا چور کیا، ذرا بھی نہ پاس ناموسِ حضور کیا۔ ملک شہریار نے فرطِ غضب سے مغلوب ہوکر اپنی بدکارہ ملکہ کو جلاد کے سپرد کیا اور جلاد نے اس کا سر شمشیر کے ایک ہی وار سے تن سے جدا کیا۔ 

اس روز سے شہریار کو عورتوں کی پارسائی و عصمت، باوفائی و عفت کا ذرا بھی دل میں یقین نہ رہا اور اس نے یہ کرنا شروع کیا کہ ہر شب ایک دوشیزہ کو بلاتا اور صبح کو اس کی جان لیتا، جیتانہ چھوڑتا۔ تین سال تک مسلسل یہ قتلِ عام جاری رہا۔ شدہ شدہ نوبت بہ اینجا رسید کہ کنواری لڑکیوں کے ماں باپ کو اس واقع کی اطلاع ہوئی اور تمام شہر میں کھلبلی مچ گئی۔ والدین کنواری لڑکیوں کو لے کر بھاگے، شہر خالی کر دیا۔ جب کوئی دوشیزہ شہر میں باقی نہ رہی تو بادشاہ نے وزیر کو بلایا اور فرمایا کہ آج ہماری دلہن بننے کو کوئی لڑکی دستیاب نہیں۔ تم خود اہتمام کرکے ہمارے لیے ایک دوشیزہ لاؤ، بہت جلد بہم پہنچاؤ ورنہ ہم بددماغ ہو جائیں گے اور سختی سے پیش آئیں گے۔ 

وزیر کے ہوش اُڑ گئے۔ ہر طرف سراغ لگایا مگر دوشیزہ کا پتا نہ پایا۔ اگر دستیاب ہوئی تو بہت ہی کمسن، بادشاہ کے قابل نہیں۔ لے جاؤں تو لوگ بے وقوف بنائیں، نہ لے جاؤں تو بادشاہ بددماغ ہو جائیں۔ جائے ماندن نہ پائے رفتن۔ بے چارے نے حیران پریشان گھر کی راہ لی۔ 

اس وزیر کی بڑی بیٹی کا نام شہرزاد تھا۔ علم و فضل میں طاق، ہر فن میں شہرۂ آفاق، صاحب سلیقہ و شعور تھی، مشہورِ نزدیک و دور تھی۔ اپنے پدرِ بزرگوار کو جو مغموم پایا تو دل بھر آیا۔ پوچھا ابا جان کیا بات ہے؟ نصیبِ دشمنان کچھ طبیعت ناساز ہے؟ جواب میں وزیر نے بادشاہ کا حال بلاکم و کاست بیان کیا۔ وزیر زادی نے فوراً کہا ابا جان اس قدر فکر بے کار ہے۔ لونڈی اس کام کے لیے تیار ہے۔ آپ مجھے بادشاہ کے سپرد فرمائیں۔ بادشاہ مجھے اپنے نکاح میں لائیں۔ خدا نے چاہا تو بادشاہ راہِ راست پر آئے اور پھر تمام عمر کسی کے قتل کا ارادہ دل میں نہ لائے۔ 

وزیر پریشان ہوا، بولا جانِ بابا تمہارا کدھر خیال ہے؟ بادشاہ کے جنون کا عجب حال ہے۔ کس خبط میں گرفتار ہو، ابھی کمسن ناتجربہ کار ہو۔ شہرزاد نے کہا ابا جان بلا سے میری جان پر آئے گی مگر میرے سبب ایک شریف زادی مسلمان تو بچ جائے گی۔ وزیر نے دیکھا کہ لڑکی ہٹ کی پکی ہے اور اس کی ضد مانے بغیر چارہ نہیں تو اپنی بیٹی کو دلہن بنا کر بادشاہ کے حضور لے گیا۔ ملک شہریار نے بہ مسرتِ تمام، بہ طبیبِ خاطر اس جادوِ جمال، زہرہ تمثال سے نکاح کیا اور اسے حجلۂ عروسی میں پہنچایا۔ 

جب بادشاہ اس کے پاس گیا تو وہ بادشاہ کو دیکھتے ہی زار زار رونے لگی۔ اشک سے عارضِگلگوں دھونے لگی۔ ملک شہریار نے پوچھا تم اس قدر آٹھ آٹھ آنسو کیوں روتی ہو؟ اگر کوئی تکلیف ہے تو اطلاع دو، علاج کیا جائے۔ شاہی طبیب کو معالجے کا حکم دیا جائے۔ شہرزاد نے بہ صد ادائے دلربانہ جواب دیا کہ اے بادشاہ سلامت مجھے اس وقت گھر والوں کی یاد آئی ہے۔ طبیعت تابِ جدائی نہ لائی ہے۔ شہریار نے پوچھا آخر یہ رنج و غم کیوں کر دور ہو؟ شہر زاد نے کہا اجازت ہو تو کوئی کہانی سناؤں؟ اپنا غم بھی غلط کروں، آپ کا بھی دل بہلاؤں۔ 

شہریار نے کہا بسم اللہ ضرور سناؤ، اس میں ہمیں کیا اعتراض ہے؟ شہر زاد نے خدا کا نام لے کر کہانی شروع کی اور الف لیلہ دوہزار اٹھارہ داستان کی بنیاد ڈالی۔ 

Loading

Read Previous

چوزے

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲

One Comment

  • السلام علیکم ۔ آپ کی رمضان ٹرانسمشن کے بعد آپ کی یہ تحریر نظر سے گزر رہی ھے دلچسپ معلوم پڑتی ھے۔ اللہ کرئے اس میں آپ کی ہمسائی مونگیرے نہ بھیجے ۔ خوش رہیں آباد رہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!