دیکھ تیرا کیا رنگ کردیا ہے —- فہمیدہ غوری
آج کل کراچی کے شہری سڑکوں ،راستوں سے گزریںتو ارد گردکی بے چاری فضائیں پکار پکار کر کہہ رہی ہوتی ہیں ۔ دیکھ! تیرا کیا
آج کل کراچی کے شہری سڑکوں ،راستوں سے گزریںتو ارد گردکی بے چاری فضائیں پکار پکار کر کہہ رہی ہوتی ہیں ۔ دیکھ! تیرا کیا
وہ دونوں انگلینڈ کے ایک دور دراز ساحل سمندر پر چٹائی پر بیٹھے ہوئے تھے۔سامنے اُن کے بچے پانی میں کھیل رہے تھے۔ سیاحوں کے
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک نوجوان ہینڈسم لڑکا جسے ایک حسینہ سے محبت ہو گئی۔ دونوں نے ایک ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ
”مان گئی وہ؟” ابھی وہ صوفے پر نیم دراز ہوا ہی تھا جب ٹیرس کا دروازہ بند کرتے پیٹر نے اس سے پوچھا۔ ”ہاں بڑی
قلعہ اور اس سے منسلک باغات اتنے وسیع وعریض تھے کہ ایک ہی دن میں سب شوٹ کر لینا ممکن ہی نہیں تھا۔ سو ان
اگلے روز وہ چاروں تاریخی کیٹ کیارنی(kate kearney) کاٹیج کیفے کی کھلی فضا میں لنچ کے لیے بیٹھے تھے۔ ”جلدی جلدی بتا کیا آرڈر کرنا
سیاہ چیتا ناجانے کیسے علاقہ غیر میں داخل ہو گیا تھا۔ رات کے اندھیرے میں وہ جان نہیں پایا تھا کہ وہ بھٹک کر اپنی
ڈھولک بج رہی تھی۔ پورے گھر میں شور مچا ہوا تھا۔ کیوں نہ ہوتا؟ آج اس کی یعنی گھر کے اکلوتے بیٹے شہزاد کی مہندی
رات کا جانے کون سا پہر تھا حلق میں کانٹے چبھتے محسوس ہوئے۔ نیند میں سائیڈ ٹیبل پر ہاتھ مارا تو کچھ ہاتھ نہ آیا۔”آج
”انسان کو کس طرح نیند آتی ہے؟” ابھی کچھ دیر پہلے ہی وہ سونے کے لیے لیٹا تھا اور اب اچانک یہ سوال اس کے