
عکس — قسط نمبر ۹
اس آئینے نے کئی سال پہلے کی طرح آج بھی اس کی نظر کو خود سے ہٹنے نہیں دیا… گزر جانے نہیں دیا۔ وہ آئینے
![]()

اس آئینے نے کئی سال پہلے کی طرح آج بھی اس کی نظر کو خود سے ہٹنے نہیں دیا… گزر جانے نہیں دیا۔ وہ آئینے
![]()

اس نے آخری بار جب اس آئینے میں اپنا عکس دیکھا تھا تو اس کا لباس اور اس کا چہرہ… اس کا جسم… اور ان
![]()

اپنے تنے ہوئے جسم کو حتی الامکان ریلیکس کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اس نے پہلی بار اس آئینے کو دیکھا، وہ اب بھی ویسے
![]()

عکس نے گاڑی سے اتر تے ہوئے سر اٹھا کر اس آئینے کو دیکھا جو اس گھر کے برآمدے میں دروازے کے پاس رکھا تھا
![]()

اس اسٹینڈنگ مرر میں اپنے عکس پر پہلی نظر ڈالتے ہی اس نے اپنی یادداشت کے سارے خانوں کو جسم سے اترے ہوئے لباس کی
![]()

اس نے اسٹینڈنگ مرر میں اپنے آپ کو دیکھا، اپنے خوبصورت بالوں کو دیکھا، اپنے بے حد نازک گولائی میں پھولے ہوئے پنک فراک کو
![]()

ایبک اس شیول مرر کے سامنے کھڑا اپنا ریکٹ گھماتے گھماتے رک گیا تھا۔ یہ آئینے میں ابھرنے والا ایک عکس تھا جس نے اسے
![]()

وہ اس اسٹینڈنگ مرر کے سامنے کھڑی چند لمحوں کے لیے جیسے فریز ہو گئی تھی۔ خیر دین ہمیشہ اسے نصیحت کیا کرتا تھا۔ ”بیٹا۔
![]()

فوزیہ ہاتھ میں گوہر کی ایڈورٹائزنگ ایجنسی کا پتا لیے بس سے نیچے اتری اور ایک راہ گیر کو پرچی دکھاتے ہوئے ایڈریس دریافت کیا۔
![]()

آج کافی دن کے بعد فوزیہ عابد کی دکان میں کھڑی چیزیں دیکھ رہی تھی۔اب گاہ بہ گاہ وہ اس کی دکان میں آتی رہتی
![]()