میری ڈائریاں میرے خواب —- محسن علی شامی
سنہری دھوپ میں نہائے گورنمنٹ ڈگری کالج بھکر کے طلائی رنگ و روپ سمیٹے درودیوار آنکھوں کو لبھا رہے تھے… کیفے ٹیریا کے سامنے بنے
سنہری دھوپ میں نہائے گورنمنٹ ڈگری کالج بھکر کے طلائی رنگ و روپ سمیٹے درودیوار آنکھوں کو لبھا رہے تھے… کیفے ٹیریا کے سامنے بنے
عشق فقیری جد لگ جائے پاک کرے ناپاکاں نوں عشق دی آتش لے جاندی اے عرشاں تیکر خاکاں نوں وہ ایک سانپ تھا، تاریک رات
”کاشی…او کاشی…!” ابھی اسے کھیلنے میں مزہ ہی آنے لگا تھا کہ کوثر کی آواز سنائی دی۔ ”کیا ہے امی؟” اس نے وہیں بیٹھے بیٹھے
شام کا پرندہ روشنی کو قطرہ قطرہ اپنے اندر جذب کر کے دن بھر کی تھکن اتارنا چاہتاتھا۔ اُسے خوابوں کی سر زمین پہ قدم
انتساب دانہ پانی کے نام جس کی تلاش کچھ کو پارس کرتی ہے کچھ کو پتھر ===================================== پیش لفظ کبھی کبھی کہانی کاغذ پر شہد
جانِ جہاں! یہ خط تمہیں حسنِ جہاں نہیں لکھ رہی۔ قلبِ مومن کی ماں لکھ رہی ہے۔ آج میں نے قلبِ مومن کے وہ خط
پیارے بابا جان السلام و علیکم میںجانتی ہوں یہ خط دیکھ کر آپ حیران ہوجائیں گے لیکن شاید آپ کی خوشی آپ کی حیرت سے
میرے پیارے اللہ السلام و علیکم آپ کیسے ہیں؟ میں بھی ٹھیک ہوں۔ آپ کو میں یاد ہوں نا؟ میں قلبِ مومن ہوں۔ آپ کو
میرے اُستاد محترم! اُمید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ آپ سے مل کر آیا ہوں اور ابھی تک سحرزدہ پھر رہا ہوں۔ پیرس فیشن
میرے پیارے سلطان! اتنے مہینوں بعد میرا خط دیکھ کر تم حیران ہو گئے نا؟ میں جانتی تھی۔ تم کو لگا ہو گا میں تمہیں