دانہ پانی — قسط نمبر ۷
کپڑا پھٹے تے لگے تروپا دل پھٹے کیہہ سینا سجناں باج محمد بخشا کیہہ مرنا کیہہ جینا ”چل موتیا! بس دیکھ لی ہے تُو نے
کپڑا پھٹے تے لگے تروپا دل پھٹے کیہہ سینا سجناں باج محمد بخشا کیہہ مرنا کیہہ جینا ”چل موتیا! بس دیکھ لی ہے تُو نے
رات اپنے تیسرے پہر میں داخل ہو چکی تھی ،میں شیشے سے سر ٹکائے تیزی سے باہر دوڑتے ہوئے مناظر دیکھ رہا تھا،کہیں کہیں لائٹس
ساجد تھکا ہارا گھر لوٹا جمیلہ نے اسے دیکھتے ہی آڑے ہاتھوں لیا:”اتنی رات گئے تک باہر کیا جھک مارتے رہتے ہو ۔تنخواہ تو تم
وہ بہت دنوں سے باتیں سن رہا تھا ۔۔ بابا کی ۔۔ اماں کی ۔۔ بہن بھائیوں کی! اٹھتے بیٹھتے آتے جاتے سب کے پاس
وہ موسمِ زرد کی ایک شام تھی! اس دن بھی وہ ریسٹورنٹ کی اسی نشست پراُداس بیٹھا تھا، جہاں وہ اپنی مرحومہ بیوی روزینہ کے
سجناں ولوں خط آیا کیویں کھولاں دس کدھرے ایہہ نہ لکھیا ہووے تیری میری بس مراد نے بندوق چلانے کے لئے گھوڑا دبانے کی کوشش
اساں خالی کھوکھے ذات دے سانوں چنجاں مارن کاں اسی کچّے کوٹھے عشق دے ساڈی دُھپ بنے نہ چھاں (ہماری ذات خالی کھوکھے جیسی ہے
اندھیروں کے سفر میںدور سے نظر آنے والی روشنی ۔۔۔۔اور گہرا ئیوں میں گرتے ہوئے دل کی بلند دھڑکنیں ، اُداسیوں میں کہیں دور سے
بس نے مجھے گاؤں کے اسٹاپ پر اُتارا ۔میں نے اپنا سفری بیگ اُٹھایا اور اپنے گاؤں کی فضا کو محسوس کرتے ہوئے ایک لمبا
وہ ساگ کا تڑکا تیار کرتے ہوئے مسکرائی…. اور پھر منہ ہی منہ میں بڑبڑائی!!! ”ایمان آج میرا پکایا ہوا ساگ تمہارے چہرے سے شرافت
Alif Kitab Publications Dismiss