سرپرست — فوزیہ احسان رانا
وشمہ چت لیٹی خالی الذہنی کی سی کیفیت میں کمرے کی چھت کو گھور رہی تھی۔ وہ سوچوں کی اندھیر نگری میں بھٹک رہی تھی
وشمہ چت لیٹی خالی الذہنی کی سی کیفیت میں کمرے کی چھت کو گھور رہی تھی۔ وہ سوچوں کی اندھیر نگری میں بھٹک رہی تھی
سنہ ٢٠٠٧ء… جی ٹی روڈ قصبوں اور شہروں کو چیرتی ہوئی لاہور کی طرف بڑھ رہی تھی۔ جوں جوں لاہور کا فاصلہ کم ہوتا جاتا
وہ درد جو میں نے کل محسوس کیا…وہ پاکستان میں روز کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی خاندان محسوس کرتا ہے۔ وہ ننھی سی چڑیا…ہمارے
کہتے ہیں، رشتے احساس کے ہی ہوتے ہیں۔ اگر احساس ہے تو غیر بھی اپنے، اور احساس نہیں تو اپنے بھی پرائے لیکن کچھ رشتے
پرانی کتابیں گود میں رکھے نادیہ کسی گہری سوچ میں گم بیٹھی تھی ۔ ڈھلتے سورج کی مدھم شعاعیں اس کے چہرے پر پڑ رہی
”دیکھو بہن آپ کا بیٹا چودہ پاس ہو یا سولہ ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں۔ ہمیں تو بس اس کی کمائی سے مطلب ہے
میں پل کے نیچے لگے ہوئے سبزی کے ٹھیلوں کے پاس کھڑا ٹریفک دیکھ رہا تھا،جب میں نے سڑک کے کنارے چودہ یا پندرہ سال
مہمان آنے والے تھے میں ڈرائنگ روم کی صفائی اور جھاڑ پونچھ میں مصروف تھی کہ مجھے کھڑکی کے بالکل قریب ایک عورت کی سسکیوں
”سنو سنوسب لوگ سن لو۔میں لکھاری ہوں،لکھاری ہوں میں۔میرے قلم کی کاٹ نے دنیا کو ادھیڑ دیا تھا۔میرے الفاظ کے جادو نے کئی لوگوں کو
ایک تھا فلسفی۔ پڑھتاکم، لکھتا زیادہ تھا بلکہ لکھنے پڑھنے سے بھی بڑھ کر وہ سوچنے کا زیادہ شوقین تھا۔ ایک دفعہ اس شخص کے
Alif Kitab Publications Dismiss