نجات دہندہ — ردا کنول (پہلا حصّہ)
بڑے سے کشادہ اور روشن کچن میں اُسے ایک ٹانگ پر کھڑے چار گھنٹے بیت گئے تھے۔کچن اس وقت تمام باورچیوں اور اُن کے معا
بڑے سے کشادہ اور روشن کچن میں اُسے ایک ٹانگ پر کھڑے چار گھنٹے بیت گئے تھے۔کچن اس وقت تمام باورچیوں اور اُن کے معا
سنو! میں شکاگو جاکر اپنی اسٹڈیز پر توجہ دوں گا۔ اچھا ہے وہاں رہتے ہوئے کچھ حاصل ہوجائے۔” ”ہاں… میں بھی یہی سوچ رہی تھی
تمہاری نیم وَا آنکھیں مرے رخسار پر، جب بھی غزل لکھیں اموزِ عشق کے اسرار، مجھ پر منکشف ہوکر سرور و کیف کی، چاہت کی،
وہ کافی دیر بے مقصدکاموں میں لگی رہی۔ باہر لاؤنج میں بیٹھی میگزین کو اُکٹ پُلٹ کرتی رہی۔ ڈنر کے بعد روحیل اپنے کمرے میں
وہ رات بارہ بجے کے قریب دوستوں سے فارغ ہوا تھا۔ شادی عرشیہ کی عدّت ختم ہونے کے دو ماہ بعد کافی سادگی سے طے
چِڑیوں کی چہچہاہٹ اور پرندوں کے سُریلے گیتوں نے ایک نئی صبح کا آغاز کیا ۔کل رات کی موسلادھار بارش کے بعد موسم نہایت خوشگوار
اُس نے آنکھیں کھولیں تو پہلا خیال دماغ میں یہی آیا تھا کہ قیامت سے گزر کر وہ کسی اندھیری قبر میں جاپہنچی تھی۔ قیامت
گھنٹہ بھر کوشش کرنے کے بعد بھی میں بمشکل چند لائنیں کاغذ پر گھسیٹ پایا تھا۔ جھنجھلاہٹ کے عالم میں قلم کاغذ پر پٹختے ہوئے
شہباز کبیر کی اولاد میں وہ تیسرے نمبر پر تھی۔ بھولی بھالی۔ من موہنی صورت، بلا کی سادہ مزاج اور حد درجے ذہین۔ جس عمر
اور یہ ان دنوں کی بات ہے جب زندگی بہت خوبصورت تھی۔ اور زندگی تو کبھی بھی بدصورت نہیں ہوتی یہ تو ہمارے ہی محسوسات
Alif Kitab Publications Dismiss