لالٹین کی فریاد
جاوید بسام
وہ لالٹین ہاتھ میں لیے درخت پر چڑھا مگر ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا
وہ یوم آزادی کی صبح تھی۔ ٹاو ¿ن ہال میں اِسی سلسلے کی تقریب جاری تھی۔ تیمور اور زبیر بھی اُس میں شریک تھے۔ جب وہ ہال سے نکلے تو شام ہونے والی تھی۔ قریب ہی نیشنل میوزیم کی عمارت دیکھ کر تیمور بولا: ”چلو میوزیم چلتے ہیں۔“
”وقت ختم ہونے والا ہے۔ اب ٹکٹ نہیں ملیں گے۔“
ٹکٹ گھر کے باہر کھڑے ملازم نے بتایا۔
”ہم بہت دور سے آئے ہیں اور کبھی میوزیم نہیں دیکھا۔“ زبیر نے کہا تو ملازم نے کچھ سوچ کر انہیں ٹکٹ دے دیے۔ دونوں تیزی سے قدم اٹھاتے عمارت میں داخل ہوگئے۔ اندر بہت سے لوگ نظر آرہے تھے۔ وہ راہداریوں سے گزرتے ہوئے ایک بڑے ہال میں آگئے۔ وہاں جدوجہد آزادی میں حصّہ لینے والوں کی یادگاریں سجی تھیں۔ وہ دل چسپی سے دائیں بائیں دیکھتے ہوئے آگے بڑھنے لگے۔
اب لوگ آہستہ آہستہ میوزیم سے باہر جانے لگے، اکثر جگہوں کی روشنیاں بھی بند کی جارہی تھیں۔ وہ چلتے ہوئے ایک کمرے میں داخل ہوئے جہاں دیوار پر ایک بہت بڑی تصویر بنی ہوئی تھی جس میں آزادی کے قافلوں کو آتے دکھایا گیا تھا۔ اس کے آگے درخت کا ایک سوکھا تنا زمین پر نصب تھا اور اس کی شاخ پر بہت پرانی لالٹین لٹکی تھی۔ ساتھ ایک چبوترے پر تختی بھی تھی جس پر کچھ لکھا تھا۔ وہ اُسے پڑھنے کے لیے آگے بڑھے ہی تھے کہ تمام روشنیاں بند ہوگئیں اور چاروں طرف اندھیرا چھا گیا۔
”ارے یہ کیا ہوا؟“ زبیر کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
”ہم تو بھول ہی گئے کہ میوزیم کا وقت ختم ہورہا ہے۔“ تیمور نے یاد دلایا۔
”چلو واپس چلتے ہیں۔“ زبیر نے منہ بنایا۔
”ہاں، مگر یار یہ لالٹین کیسی ہے؟ کچھ روشنی ہوتی تو جان لیتے۔“ تیمور بولا۔
”چلو پھر کبھی آئیں گئے تو پہلے اسے دیکھیں گے۔“ زبیر نے کہا۔
دونوں پلٹے اور دروازے کی طرف بڑھے، اچانک انہیں محسوس ہوا کہ پیچھے روشنی ہوگئی ہے۔ وہ مڑے تو لالٹین کو روشن دیکھا۔ وہ حیرت زدہ رہ گئے۔ تیمور نے ڈرتے ڈرتے سرگوشی کی: ”یہ…. یہ کیسے ہوا؟“
”معلوم نہیں، مگر ہمیں یہاں سے فوراً نکل جانا چاہیے۔“ زبیر نے تشویش ظاہر کی۔
”اب روشنی ہوگئی ہے تو کیوں نہ تحریر پڑھ لیں۔“ تیمور نے کہا۔
پھر دونوں دبے قدموں چبوترے کی طرف بڑھے۔ ان کے دل تیزی سے دھڑک رہے تھے۔ قریب جا کر وہ لالٹین کے ساتھ رکھی تختی کی تحریر پڑھنے لگے۔
”یہ وہ لالٹین ہے جس سے سو افراد اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوئے۔“ دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
”اوہ !مگر کس طرح؟“ زنیر حیران ہوا۔
”یہ تو میوزیم کا کوئی اہلکار ہی بتا سکتا ہے۔“ تیمور نے کہا۔
”چلو چلتے ہیں۔“ زبیر کچھ آگے بڑھا۔
دونوں گھوم کر دروازے کی طرف بڑھے، اچانک انہیں ایک سرگوشی سنائی دی۔ ”رکو میرے بچّو! میں تمہیں بتاتی ہوں۔“ وہ کسی بڑھیا کی کمزور سی آواز تھی۔
دونوں اچھل پڑے، ابھی وہ وہاں سے بھاگنے ہی والے تھے کہ دوبارہ آواز آئی: ”ڈرو نہیں، میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاو ¿ں گی، بلکہ میں نے تو پوری زندگی لوگوں کو فائدہ ہی پہنچایا ہے۔“
”آپ…. آپ کون ہیں؟“ تیمور نے ہکلاتے ہوئے پوچھا۔
”ارے! تم ابھی تک مجھے پہچان نہیں پائے؟ میں لالٹین بول رہی ہوں۔“
دونوں نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا پھر زبیر بولا:
”مگر لالٹین کیسے بول سکتی ہے؟“
”قدرت چاہے تو پتھر بھی بول پڑتے ہیں، تو لالٹین کیوں نہیں۔ آو ¿ میرے قریب آجاو ¿، ڈرو نہیں، میں تمہیں اپنی کہانی سناتی ہوں۔“
دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے ڈرتے ڈرتے لالٹین کے قریب چلے گئے۔
”سنو! یہ بہت پرانی بات ہے، اتنی پرانی کہ جب تمہارے ماں باپ بھی پیدا نہیں ہوئے ہوں گے۔ ہندوستان کے ایک دور دراز گاو ¿ں میں فضل دین نام کا ایک مزور رہتا تھا۔ سب اسے فضلو کہتے تھے۔ وہ بہت غریب تھا، مزدوری مل جاتی تو روکھی سوکھی کھالیتا، ورنہ فاقہ کرنا پڑتا۔ وہ اکیلا تھا دنیا میں اس کا کوئی رشتے دار نہ تھا۔ بس گاو ¿ں والے ہی اس کے سجن ساتھی تھے۔ وقت یوں ہی گزررہا تھا کہ خبریں آنے لگیں مسلمانوں کے لیے ایک نیا دیس بنایا جارہا ہے۔ لوگ خوش ہوگئے کیوں کہ وہ ہندوو ¿ں کے ظلم و ستم کا شکار تھے۔ انہوں نے سوچا ‘نئے دیس میں ہم آزادی سے اپنی زندگی گزار سکیں گے‘ پھر خوب جلسے جلوس نکلنے لگے۔ فضلو بھی ان میں شریک ہوتا اور واپس آکر گاو ¿ں والوں کو اس کا احوال سناتا۔
جوں جوں آزادی کے دن قریب آتے گئے لوگوں کا جوش و خروش بڑھتا گیا۔ پھر انہوں نے ایک دن یہ بڑی خبر سنی کہ ان کا علاقہ نئے دیس میں شامل نہیں ہوگا۔ یہ سن کر سب کے منہ لٹک گئے، مگر جب انہیں یہ پتا چلا کہ جو چاہے نئے دیس میں جاسکتا ہے تو وہ سوچ میں پڑ گئے۔ کچھ لوگوں نے تو جانے سے انکار کردیا، کچھ سوچتے رہے اور کچھ لوگوں نے فوراً فیصلہ کیا کہ ہم ضرور جائیں گے۔ فضلو بھی ان میں شامل تھا۔ جوں ہی آزادی کا اعلان ہوا فسادات پھوٹ پڑے۔ ہندوو ¿ں اور سکّھوں کو مسلمانوں کے لیے الگ دیس منظور نہ تھا۔ وہ انہیں ہمیشہ اپنا غلام دیکھنا چاہتے تھے۔ لوگوں نے گھروں کا سامان سمیٹنا شروع کردیا۔ سفر لمبا اور مشکل تھا اس لیے بھاری سامان تو لے جا نہیں سکتے تھے بس جو قیمتی چیزیں اور روپیہ پیسہ تھا وہ اپنی اپنی گٹھڑیوں میں باندھ لیا۔
فضلو بھی چلنے کو تیار تھا۔ اس نے جب اپنے گھر میں کوئی قیمتی چیز ڈھونڈنے کے لیے نظر دوڑائی تو کچھ بھی نہ ملا، روپیہ پیسہ تو پہلے ہی اس کے پاس نہ تھا، لیکن اسے نئے وطن میں خالی ہاتھ جانا اچھا نہیں لگ رہا تھا پھر اس کی نظر مجھ پر پڑی۔ فضلو میرا خیال رکھتا تھا، ہمیشہ احتیاط سے تیل ڈالتا، صاف کپڑے سے میرے شیشے کو خوب چمکاتا، بتی کو ہمیشہ تراش کر رکھتا تاکہ لُو نہ بھڑکے۔ اس نے مجھے اُٹھایا اور لوگوں کے ساتھ ہو لیا۔ کسی نے پوچھا: فضلو! یہ لالٹین کیوں لے آئے ہو؟ فضلو بولا، یہ میری سب سے قیمتی چیز ہے اس نے میرے گھر کو ہمیشہ روشن رکھا ہے۔
سفر شروع ہوا۔ وہ بلوائیوں سے بچتے، ویران علاقوں اور جنگلوں سے گزررہے تھے۔ کچھ کے پاس گدھے اور گھوڑے تھے، لیکن زیادہ تر پیدل تھے۔ راستے میں انہیں خبریں ملنے لگیں کہ ہندو اور سکھ جگہ جگہ گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ وہ قافلوں کو گھیر کر حملہ کردیتے اور لوگوں کو مار کر مال و متاع لوٹ لیتے ہیں۔ وہ احتیاط سے سفر کررہے تھے اور دعا مانگ رہے تھے کہ دشمن سے مڈبھیڑ نہ ہو۔ اب انہیں اکثر جگہوں پر لاشیں پڑی نظر آئیں جنہیں چیلیں اور کوّے نوچ رہے تھے۔
سفر روز بہ روز خطر ناک ہوتا جارہا تھا۔ سب ڈرے ہوئے تھے۔ وہ اندازے سے مشرق کی جانب بڑھ رہے تھے۔ بعض لوگ تو بیمار بھی ہوگئے تھے، مگر سفر جاری تھا۔ پھر انہیں ایک آدمی ملا جس نے بتایا کہ آگے بہت خطرہ ہے۔ بلوائیوں کے خونی جتھے تلواروں، کرپانوں اور دوسرے ہتھیاروں سے قافلوں پر حملے کررہے ہیں۔ یہ سن کر قافلے والے دل ہی دل میں دعا کرتے آگے بڑھتے رہے۔
ایک دن جب ان کا سفر جاری تھا، کچھ بلوائیوں نے انہیں گھیر لیا۔ وہ تعداد میں زیادہ نہ تھے۔ ان کے ہاتھوں میں تلواریں اور خنجر چمک رہے تھے۔ ایک آدمی کے پاس بندوق بھی نظر آرہی تھی۔ وہ جے جے رام اور ست سری اکال کے نعرے لگا رہے تھے۔ قافلے والوں کے پاس بہت کم ہتھیار تھے، مگر انہوں نے بہادری سے ان کا مقابلہ کیا۔ ہر سُو چیخ و پکار مچ گئی۔ مردوں نے عورتوں اور بچوں کو اپنے درمیان دائرے میں لے رکھا تھا اور جرا ¿ت سے ان کا مقابلہ کررہے تھے، فضلو بھی کسی سے پیچھے نہ تھا۔ اس دوران اُس نے اچانک بندوق چھین کر گولی چلا دی، تو تمام بلوائی دُم دبا کر بھاگے اور ذرا سی دیر میں میدان خالی ہوگیا۔ قافلے والوں نے فوراً وہ جگہ چھوڑ دی اور جنگل میں جاکر پناہ لے لی۔
وہ دو دن تک وہاں چھپے رہے۔ انہیں اکثر دور سے لوگوں کے گزرنے اور گھوڑوں کے ٹاپوں کی آوازیں آتیں، وہ بہت ڈرے ہوئے تھے۔ رفتہ رفتہ راشن بھی ختم ہونے لگا تھا۔ پھر ایک دن جب وہ پریشان بیٹھے تھے۔ فضلو نے کہا کہ ہمیں رضا کاروں سے مدد لینی چاہیے، مگر کس طرح یہ کسی کو معلوم نہ تھا۔ اس زمانے میں رضا کار کسی چرواہے، شکاری یا جوگی کے بھیس میں گھوما کرتے تھے تاکہ اپنی بھی حفاظت کرسکیں۔
فضلو کچھ دیر سوچتا رہا پھر بولا: ”ایک تجویز سنیے۔ میرے پاس یہ لالٹین ہے۔ میں اسے جلا کر رات کو کسی درخت پر چڑھ جاو ¿ں گا، اگر آس پاس کوئی رضا کار ہوا تو وہ ضرور مدد کو آئے گا۔“
”اگر بلوائیوں نے روشنی دیکھ لی؟“ ایک آدمی بولا۔ ”میں یہاں سے دور چلا جاو ¿ں گا، پھر لالٹین روشن کروں گا۔ اگر بلوائی آئے تو میں اپنی جان دے دوں گا، مگر قافلے کا کسی کو نہیں بتاو ¿ں گا۔“
لوگ سوچنے لگے، پھر ایک آدمی بولا: ”تم اپنی زندگی کیوں خطرے میں ڈال رہے ہو؟
”میں اس دنیا میں اکیلا ہوں، اگر میری قربانی سے آپ لوگوں کی جان بچ جاتی ہے تو سمجھو میں نے سب کچھ پالیا۔“
آخر لوگوں نے فضلو کو اجازت دے دی۔ رات ہوئی تو فضلو نے سب کو اللہ حافظ کہا اور چل دیا۔ اس نے خطر ناک قدم اٹھایا تھا، مگر مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ایسی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ میں دل ہی دل میں اس کی کامیابی کی دعا مانگ رہی تھی۔ بہت دور جا کر اس نے اِدھر اُدھر دیکھا اور اللہ کا نام لے کر ایک اونچے درخت پر چڑھ گیا۔ اُس نے دور تک نظر دوڑائی ہر طرف ہو کا عالم تھا۔ اس نے ماچس کی تیلی جلا کر مجھے روشن کیا اور ایک شاخ پر لٹکا دیا اور خود کچھ دور ہوکر بیٹھ گیا۔ میں زندگی میں کبھی اتنا تیز نہیں جلی تھی جتنا اس رات جلی۔
وقت آہستہ آہستہ رینگتا رہا، مگر کچھ نہ ہوا۔ فضلو اپنی جگہ بیٹھا دعا مانگ رہا تھا۔ رات کا آخر پہر تھا۔ جب خشک پتوں پر کسی کے چلنے کی ہلکی سی آہٹ ہوئی۔ میرا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ فضلو بھی پریشان تھا۔ پھر ایک سایہ اندھیرے سے نکل کر سامنے آیا۔ اس نے ایک گٹھڑی ڈنڈے میں پھنسا کر اٹھا رکھی تھی۔ جب وہ کچھ قریب آیا، تو فضلو نے دیکھا وہ جوگی ہے۔ اس کے ماتھے پر تلک لگا تھا۔ وہ سر اُٹھا کر اوپر دیکھنے لگا۔ فضلو نیچے اتر آیا۔
دونوں خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے پھر جوگی نے دھیرے سے سلام کیا۔ فضلو نے بے اختیار آگے بڑھ کر اس سے ہاتھ ملایا اور سرگوشیوں میں اسے تمام بات بتائی۔ اُس نے گردن ہلائی اور چلنے کے لیے تیار ہو گیا۔ فضلو اسے لے کر قافلے کی طرف بڑھ گیا۔ غرض وہ رضا کار جو جوگی کے بھیس میں تھا، پورے قافلے کو بآسانی خیریت سے اُس خطر ناک علاقے سے نکال لایا۔
پورے آٹھ گھنٹے چلنے کے بعد ہم نئے دیس میں پہنچے تو سب نے سجدہ شکر ادا کیا۔ وہ خوشی سے رو رہے تھے اور گلے لگ کر ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے تھے۔ وہ بار بار فضلو کا شکریہ بھی ادا کررہے تھے۔ فضلو نے مجھے اوپر اٹھا رکھا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا یہ اللہ کی مدد اور اس لالٹین کی بدولت ہوا۔
دن گزرتے رہے لوگ مختلف علاقوں میں چلے گئے۔ فضلو مجھے لے کر لاہور آگیا۔ وہ ہر وقت مجھے اپنے ساتھ رکھتا تھا، کوئی پوچھتا تو اسے میری کہانی سناتا۔ ہر طرف میرا چرچا ہونے لگا۔ اُڑتے اُڑتے یہ خبر سرکار کے کسی افسر کے کانوں تک بھی پہنچ گئی۔ ان کا میوزیم سے تعلق تھا۔ ایک دن انہوں نے فضلو کو بلوایا۔ فضلو مجھے ہاتھ میں لٹکائے وہاں گیا جس طرح اس کی عادت تھی۔ افسر نے فضلو سے پوری روداد سنی اور کہا ہم آزادی کی یادگاریں جمع کررہے ہیں، اگر تم چاہو تو یہ لالٹین ہمارے پاس جمع کرا دو۔
پہلے تو اُس نے منع کیا، لیکن پھر اسے خیال آیا میں کب تک اسے لیے گھومتا رہوں گا۔ اُس نے مجھے اُن کے حوالے کردیا۔ لالٹین نے آہ بھری اور خاموش ہوگئی پھر بولی:
”بس بچہ! جب سے میں یہاں لٹکی ہوں۔ لوگ آتے ہیں، دیکھتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، میوزیم کا اہلکار مختصر لفظوں میں میری کہانی بیان کرتا ہے۔ لوگ اس کا بہت اثر لیتے ہیں، مگر مجھے معلوم ہے وہ اثر تھوڑی دیر کا ہوتا ہے۔ وہ باہر جاکر اسے بھول جاتے ہیں۔ میں ان سے کسی بات کا شکوہ نہیں کرتی۔ بس ایک بات کی طلب گار ہوں۔“
لالٹین نے کچھ توقف کیا پھر بھرائی ہوئی آواز میں بولی: ”خدارا اپنی آزادی کی قدر کرو۔ اسے جھوٹا قصّہ نہ سمجھو۔ یہ بہت جدوجہد کے بعد حاصل ہوئی تھی۔“
یہ کہہ کر لالٹین خاموش ہوگئی۔ دونوں دوست سحر زدہ حالت میں لالٹین کی رُوداد سن رہے تھے، اچانک چونک اٹھے اور اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کرنے لگے۔ اتنے میں باہر سے آواز آئی: ”یہاں کون ہے؟“ یہ میوزیم کہ چوکی دار کی آواز تھی۔
وہ دروازے کی طرف بڑھے تو دار لالٹین کی روشنی اچانک تیز ہوئی اور بجھ گئی۔
٭….٭….٭
آرٹ بریف
1۔ ایک پرانے سے میوزیم کی عمارت جہاں ہلکی روشنی اور کچھ اندھیرا ہے۔ میوزیم کی راہ داری سے لڑکے گزر رہے ہیں جن کی عمر 12 سے 15 سال ہے۔ میوزیم کی دیوار کے ساتھ لٹکی ایک بڑی سی مگر پرانی لالٹین روشن ہے لالٹین کی آنکھیں ہیں اور وہ لڑکوں کو بلا رہی ہے۔ ان کی طرف دیکھ کر۔ لڑکے گردن موڑ کر لالٹین کو حیرت سے دیکھ رہے ہیں۔
2۔ ایک جھنڈ ہے درختوں کا…. رات کا منظر ہے۔ ایک آدمی درخت کے اوپر چڑھا لالٹین ہاتھ میں لیے اسے بلند کررہا ہے۔ باقی سب لوگ نیچے کھڑے اسے دیکھ رہے ہیں۔ منظر میں زیادہ تر اندھیرا ہے۔
٭….٭….٭