الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱

حسن بدرالدین باپ کی زندگی میں خوشی و شادمانی میں رہتا تھا، کبھی کاہے کو رنج و غم سہتا تھا۔ رات شبِ برات تو دن عید۔ باپ کی مرگِ ناگہانی نے وہ صدمۂ جاں گزا دکھایا کہ حالِ زار ہوگیا، مارے قلق کے بیمار ہوگیا۔ غرض چالیس روز تک سوگ منایا کیا۔ چالیس روز بعد کاروبارِ دنیا میں مصروف ہوا۔ اچھے وقت کے دوستوں نے اسے دوبارہ گھیر لیا۔ دن رات دعوتیں ہونے لگیں، عیش و عشرت کی محفلیں جمنے لگیں۔ حسن بدرالدین تجارت سے غافل ہوا، بدباطن دوستوں کی صحبت میں پڑ کر شکارِ باطل ہوا۔ تین سال کے اندر اندر نوبت یہاں تک جا پہنچی کہ کل مال و متاع اور اسبابِ تجارت اُڑا دیا اور مفلس و قلاش ہوگیا۔ دوست جو اچھے وقت میں پروانہ وار منڈلاتے تھے، ساتھ چھوڑ گئے۔ مفلسی کے سبب ماں بیمار پڑی اور داغِمفارقت دے گئی۔ اب حسن بدرالدین کی آنکھیں کھلیں اور دل میں بہت بچھتایا کہ باپ کی نصیحت نہ مانی۔ قصور ہوا، خدا جانے میری عقل میں کیا فتور ہوا، مگر اب پے در پے صدمے پائے ہیں۔ اب عقل کرنا ضرور ہے، عاقبت نااندیشی سے طبیعت نفور ہے۔ 

حسن بدرالدین نے باپ کی آخری نشانی وہ چھری جو اس کے گلے پر پھری تھی ساتھ لی، زادِ راہ کے نام پر چند روٹیاں رومال میں لپیٹیں اور خدا کا نام لے کر سفر پر روانہ ہوا۔ تمام دن چلنے کے بعد ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر آرام کرنے لگا۔ تھکن سے چور چور تھا۔ دل رنج و غم سے معمور تھا۔ رومال کھول کر دو روٹیاں کھائیں اور ندی کے پانی سے پیاس بجھائی۔ وہاں بیٹھے بیٹھے اپنی گزشتہ فارغ البالی و امارت یاد آئی اور اپنی موجودہ بدحالی پر غم و ماتم کرنے لگا۔ اب سنیے کہ وہ باغ جس میں حسن بیٹھا روتا تھا، اس ساحرہ کا تھا جس نے اس کے باپ کو بکرا بنایا تھا، اجل کا رستہ دکھایا تھا۔ اتفاق سے وہ ساحرہ وہاں سے گزری تو حسن بدرالدین کے حسنِ پرسوز پر عش عش کرنے لگی۔ عشق کا پتھر جگر کے پار ہوا۔ محبت کا دم بھرنے لگی۔ ہزار جان سے اس نوجوان غنچہ دہان پر مرنے لگی۔ 

فوراً ایک حسین مہ جبین پری کا روپ دھارا اور بہ صد شانِ دلبری حسن کے پاس آئی۔ پوچھا اے جوانِ رعنا تجھے کیا ہوا ہے؟ کیا غم ہے کہ زار زار روتا ہے، رو رو کر جان کھوتا ہے؟ حسن نے جو ایک پری وش عورت سامنے کھڑی پائی تو باپ کی دوسری نصیحت بھی بھول گیا اور بلا کم و کاست تمام ماجرا کہہ سنایا۔ ساحرہ دل میں ہنسی کہ یہ تو میرے ہی شکار کا لختِ جگر ہے، اس کو پھنسانا کیا مشکل ہے۔ حسن سے کہنے لگی تیرے بخت نے رسائی کی جو میں نے تجھے دیکھ لیا۔ اب میرے ساتھ چل اور میرے ساتھ نکاح پڑھا۔ یہ سن کے حسن گھبرایا کہ جان نہ پہچان میں تیرا مہمان۔ یہ کیسی عورت ہے کہ انجان مرد سے عقد کی بات کرتی ہے۔ غیر مرد سے پردہ اٹھایا، حیا کو بھون کھایا، ایسی عورت سے خدا بچائے۔ 

اسے شش و پنج میں پڑا دیکھ کر ساحرہ غصے میں آئی اور بولی یہ کیا بات ہے کہ مجھ سی زہرہ جمال عورت تیرے جیسے ادنیٰ آدمی سے نکاح کی بات کرے، تیرا مرتبہ بڑھائے اور تو ناک بھوں چڑھائے؟ یہ سن کر حسن بھی ناراض ہوا اور کہنے لگا۔ میرا باپ عالی خاندان و ذی مرتبہ آدمی تھا۔ اس کی وصیت تھی کہ زنِ مکارہ سے بچ کر رہنا۔ میں تجھ سے ہر گز عقد نہ کروں گا۔ یہ سن کر ساحرہ طیش میں آئی اور بولی تیرے باپ کو میں نے ہی بہ زورِ سحر بکرا بنایا تھا۔ اب تجھے بھی اس غرور و بے ادبی کی سخت سزا دوں گی، ابھی ابھی تماشا دکھا دوں گی۔ یہ کہہ کر سحر پڑھنے لگی۔ حسن بدرالدین نے رومال سے چھری نکالی کہ اپنے باپ کی قاتلہ کا کام تمام کرے، یکایک ساحرہ نے بہ زور جادو کے اسے اٹھایا اور سر کے اوپر گھمایا۔ بولی، تجھ پر دل آگیا تھا، اس لیے تجھے جان سے نہیں ماروں گی، البتہ تجھے وقت کی گردش میں ضرور پھینک دوں گی۔ جا اپنے زمانے سے نکل اور تا ابد زمان کار میں بھٹکتا رہ۔ یہ کہہ کر حسن کو پھینکا، ادھر حسن نے چھری تاک کر پھینکی، چھری ساحرہ کے دل میں پیوست ہوئی اور حسن وقت کی گردش میں پیوست ہوا۔ ساحرہ اپنے باغ کے نرم فرش پر جاگری اور حسن بدرالدین وقت کے گرداب میں پھنسا، زمانِ پاستان سے نکلا اور سال دو ہزار اٹھارہ میں جاگرا۔ 

شہر زاد نے کہانی یہیں تک کہی تھی کہ سپیدہء طلعت نشانِ صبح نمودار ہوا، پوپھٹنے لگی، صبح صادق کا نور فلک پر آشکار ہوا۔ شہر زاد گھبرائی کہ صبح صادق کی صورت نظر آئی اب کوئی دم میں ہم عدم کی راہ لیں گے، بادشاہ سلامت کہانی کاہے کو پوری ہونے دیں گے۔ ادھر بادشاہ پر اس جادو جمال کی سحر آفرینی نے وہ رنگ جمایا کہ فوراً فرمایا کہ مابہدولت کو اس قصۂ دلکش کے سننے کا از بس اشتیاق ہے۔ شہرزاد بولی اگر بادشاہ سلامت نے میری جان بخشی تو باقی حصہ رات کو سناؤں گی، آپ کی روح کو وجد میں لاؤں گی۔ بادشاہ نے کہا، جب تک تمام کہانی من و عن نہ سنوں گا ہر گز کوئی حکم تمہارے خلاف نہ دوں گا۔ وعدہ بادشاہ کے ہاتھ ہے، مردوں کا قول جان کے ساتھ ہے۔ یوں شہر زاد نے قرار کیا، بادشاہ کے وعدے پر اعتبار کیا۔ 

(باقی آئندہ)

*۔۔۔*۔۔۔* 

 

Loading

Read Previous

چوزے

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲

One Comment

  • السلام علیکم ۔ آپ کی رمضان ٹرانسمشن کے بعد آپ کی یہ تحریر نظر سے گزر رہی ھے دلچسپ معلوم پڑتی ھے۔ اللہ کرئے اس میں آپ کی ہمسائی مونگیرے نہ بھیجے ۔ خوش رہیں آباد رہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!