(رات:۱)
شہرزاد پری رخسار کی زبانی، سوداگر بچے کی کہانی:
شہرزاد پری زاد نے لبوں سے قندگھولا اور اس کے منہ سے یوں پھول جھڑنے لگے کہ اے شہریارِ والا تبار، کسی ملک میں ایک سوداگر بڑا عالی خاندان و مال دار تھا۔ مال و دولت، غلام و کنیزیں بکثرت تھیں۔ جابجا تجارت کی دکانیں سجی سجائی، تمام دنیا کی اشیائے بے بہا، چنی چنائی، دور دور تک اس کی ساکھ اور نام تھا۔ زمانہ ہاتھوں میں اور وقت غلام تھا۔
اسی سوداگر کا اکلوتا لڑکا اللہ آمین کا پالا تھا۔ ماں واری صدقے جاتی تھی، باپ پیروں تلے ہاتھ دھرتا تھا۔ یہ سوداگر بچہ جوان ہوا تو اس کے حسن و جمال کا دنیا میں چرچا ہونے لگا۔ خوش خو و خوب رو، نوجوان و نوخاستہ سوداگر زادے کا نام حسن بدر الدین تھا۔ باپ کے ساتھ تجارت میں ہاتھ بٹاتا تھا، دنیا میں اپنی دریا دلی کا سکہ جماتا تھا۔ اس کے حسن و جمال اور دولت و دریا دلی کے سبب شہر بھر کے لونڈے لپاڑے کہ موقع پرست و مفت خور تھے۔ اس کے گرد جمع رہتے تھے۔ سوداگر اکثر بیٹے کو سمجھاتا تھا کہ جانِ پدر چار دن تو نچلے بیٹھو، چادر سے پاؤں نہ نکالو، ان ہری چگ دوستوں سے منہ موڑو، ان کی رنگ رلیوں کو ٹالو، یہ سب دولت پیسہ تمہارا ہی ہے۔ یوں اڑاؤ گے تو پھوٹی کوڑی کے محتاج ہونے میں دیر نہ لگے گی۔ یہ کیا جلد بازی ہے؟ ان یاروں کی دوستی، دوستی نہیں فسوں سازی ہے۔ حسن بدرالدین اس نصیحت کو ایک کان سن، دوسرے کان اڑاتا تھا اور بہ دستور اپنے پیسے سے دوستوں کی محفلوں کی رونق بڑھاتا تھا۔
ایک دن سوداگر اپنی دکان میں حسبِ معمول بیٹھا تھا کہ ایک زنِ مہ پارہ قاطر پر سوار آئی۔ سوداگر کی دکان کے قریب اتری اور اٹھلاتی، بوٹی بوٹی پھڑکاتی دکان میں آئی۔ برقع اٹھا کر ایک نظرِ غلط انداز ڈالی۔ سوداگر نے جو چہرہ زیبا دیکھا تو خدا کی خدائی پر حیران ہوا۔ اس مہ وش زریں کمر نے سوداگر سے کہا کچھ مال دکھاؤ، دل بہلاؤ۔ سوداگر نے ریشم کے تھان کھول کر سامنے رکھے جو وہ پچھلے مہینے دمشق سے لایا تھا۔ اس عورت نے دو قیمتی ریشمی تھان پسند کیے اور کہا ان کو قاطر پر رکھوا دیجیے۔ سوداگر نے کہا بسرو چشم، مگر پہلے قیمت ادا کر دیجیے، ایک سو درہم دیجیے، تھان اٹھوا لیجیے۔ یہ سن کر وہ پری وش غضب میں آئی۔ جھلا کر بولی، موئے عقلی کے ناخن لے، بھلا ہم سے قیمت لے گا؟ سوداگر نے کہا یوں تو آپ لے جائیے، آپ ہی کا مال ہے مگر تجارت میں گھاٹا کھانا عقل سے دور ہے ورنہ مفلوک الحال ہونا ضرور ہے۔
یہ سن کر عورت کو طیش آیا، کہنے لگی۔تو مجھے جانتا نہیں، میں مشہورِ زمانہ ساحرہ ہوں۔ پری، چڑیل، ڈائن سب کا روپ دھار سکتی ہوں، تو نے مجھے ناراض کیا ہے، از بس کہ اس کی سزا تجھے ضرور دوں گی، جیتا نہ چھوڑوں گی۔ کھڑے کھڑے سوداگر کو بہ زورِ سحر بکرا بنا دیا اور کان سے پکڑ کر منڈی میں لے گئی۔ وہاں دم کے دم میں دام کھرے کیے اور اپنے گھر کو سدھاری۔
ادھر حسن بدرالدین کی سنیے۔ اس نے اپنے دوستوں کو دعوت پر بلایا اور ان یارانِ عیاران نے فرمائش کی آج تو قورمہ قلیہ کی دعوت ہونی چاہیے۔ اُسی دم حسن نے ہرکارے کو دوڑایا کہ بازار سے ایک موٹا تازہ بکرا خرید لائے۔ وہ بکرا لایا اور جب اس کے گلے پر چھری چلائی تو وہ بکرا یک بیک انسانی جون میں آیا۔ قصائی نے سوداگر کو زخمی حالت میں روبہ رو پایا۔ ہاہا کار مچ گئی۔ حسن بدر الدین دوڑا آیا اور باپ کو اس حالت میں دیکھ کر زار زار رویا۔ سوداگر نے کہا جان بابا ایک ساحرہ کہ زن مکارہ تھی، کے ہاتھوں یہ حال ہوا ہے۔ میری آخری وصیت یاد رکھنا مکار عورت کا کبھی اعتبار مت کرنا خواہ کتنی ہی خوب صورت ہو اور نیک و شریف عورت کی بہت قدر کرنا خواہ کتنی ہی کم صورت ہو۔ تیسری وصیت یہ کہ رنگ رلیوں میں مال مت اڑانا اور سوداگری کے جو اصول میں نے سکھائے ہیں، انہیں دیانت دارانہ کام میں لانا۔ یہ کہہ کر جان جانِ آفریں کے سپرد کی۔ مرغِ روح قفس بدن سے آزاد ہوا، ہنستا بستا گھر برباد ہوا۔
گزرنا حسن بدرالدین پر رنج و الم کا اور چڑھنا اس کا زن مکارہ کے ہتھے:
One Comment
السلام علیکم ۔ آپ کی رمضان ٹرانسمشن کے بعد آپ کی یہ تحریر نظر سے گزر رہی ھے دلچسپ معلوم پڑتی ھے۔ اللہ کرئے اس میں آپ کی ہمسائی مونگیرے نہ بھیجے ۔ خوش رہیں آباد رہیں