صحرا کی بلبل؛ ریشماں
لعل خان
یہ سال1959ء تھا۔ پاکستان بارہ برس کا ہو چکا تھا۔سلیم فارانی اور سید پطرس بخاری جیسے فاضل اساتذہ کی سرپرستی میں رہنے والے سیدسلیم گیلانی تب تک مقابلے کا امتحان پاس کرکے اسسٹنٹ ریجنل ڈائریکٹر بننے کے بعد واشنگٹن ڈی سی امریکہ کے لیے سکرپٹ ایڈیٹر،اناؤنسر اور پروڈیوسر کا سفر بھی طے کر چکے تھے۔ یہ اس وقت ریڈیو پاکستان کے مشہور ترین براڈ کاسٹر تھے اور ریڈیو پاکستان کے لیے ڈائریکٹر جنرل بننے کے لیے ان کا سفر جاری تھا۔یہ وہی سید سلیم گیلانی ہیں جنہوں نے مہدی حسن،فریدہ خانم اور ثریا ملتانیکر جیسی مایہ ناز اور بے مثال آوازوں کو ڈھونڈا تھا۔یہ جوہر شناس اور جوہر تلاش انسان تھے اور ہیروں کو ڈھونڈنا اور پھر انہیں تراش کر انمول بنا دینا انہیں بے حد پسند تھا۔سال 1959ء چل رہا تھا اور یہ اس سال کے لیے کسی نئی آواز کی تلاش میں بھٹک رہے تھے۔ یہ تلاش انہیں ”سیہون شریف“ لے گئی جہاں ”حضرت لعل شہباز قلندر“کا مزار ہے۔ یہ اس دن مزار پر پہنچے اور عجیب منظر دیکھا۔ لوگوں کا ایک ہجوم عالمِ سوز میں ڈوب کر جھوم رہا تھا۔ ان کی نظر لاتعداد ”دھمال“ ڈالنے والوں پر پڑی اور ساتھ ہی کانوں میں مدھر،دل کو موہ لینے والی پرسوز مگر معصوم سی آواز رس گھولنے لگی۔ یہ جوہر ی تھے اور ہیرا ان کے کہیں بے حد قریب تھا۔ یہ بے تاب ہو کر جھومتے ہوئے مدہوش ہجوم کو چیرکر آگے بڑھے اور پھر ساکت کھڑے رہ گئے۔ نو دس سال کی ایک بچی ”گڑوی“ سامنے رکھ کر ”لعل میری پت رکھیو“ گانے میں مصروف تھی۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور سلیم گیلانی کی آنکھیں دھیرے دھیرے نم ہو رہی تھیں۔ یہ بچی غربت کی چلتی پھرتی تصویر تھی۔ سلیم گیلانی اس کی آواز نہ سنتے تو شاید وہ ان کی ایک نظرِ غلط کی حقدار بھی نہ ٹھہرتی۔ وہ زیادہ سے زیادہ اسے فقیروں کی بچی سمجھ کر ایک آنے کی بھیک دے دیتے مگر انہوں نے پہلے اس کی آواز سن لی تھی اور اب وہ ان کے لیے خاص ہو چکی تھی۔بچی اپنی پشت پر کھڑے ہوئے مقدر سے بے نیاز گڑوی بجا تے ہوئے لہرا لہرا کر گا رہی تھی اور دھمال بڑھتا چلا جا رہا تھا۔یہ کافی دیر تک اپنی درد بھری آواز میں سر بکھیرتی رہی اور سلیم گیلانی مدہوش ہو کر سنتے رہے۔بالاخر اس جادوئی آواز کا طلسم ٹوٹا اور ماحول میں ایک دم گہری خاموشی چھا گئی۔جھومتے ہوئے سر ساکت ہو گئے اور دھمال ڈالتے ہوئے پاؤں رک گئے۔سلیم گیلانی ایک دم ہوش میں آئے اور بے تابی سے آگے بڑھے۔بچی گڑوی سنبھالتے ہوئے اٹھ رہی تھی جب انہوں نے سامنے آکر اس ننھی کوئل کو دیکھا اور بڑی محبت سے پوچھا:
”بیٹی تمہارا نام کیا ہے؟“
بچی نے قدرے حیرت سے سامنے پینٹ کوٹ میں کھڑے ہوئے اجنبی شخص کو دیکھا اور معصوم سی آواز میں بولی۔
”پٹھانی بیگم۔“
جوہری کے ہاتھ ہیرا لگ چکا تھا۔پٹھانی بیگم نام کا یہ ہیرا آگے چل کر ”ریشماں“ بنا اور دنیا کے سامنے آیا۔
٭……٭……٭
آپ سب نے مشہور محاورہ ”گودڑی میں لعل“ سن رکھا ہو گا۔یہ محاورہ برصغیر کی مایہ ناز فوک گلوکارہ ریشماں جی پر صادق آتا ہے۔اس بات کو سمجھنے کے لیے ہم ریشماں جی کے ماضی میں جائیں گے۔اٹھارویں صدی کے آخر میں بھارتی ریاست راجھستان میں خانہ بدوش قبیلوں کی اکثریت تھی۔ یہ لوگ نسلاً بھی خانہ بدوش ہی کہلاتے تھے۔ یہ ہندو مذہب سے تعلق رکھتے تھے مگر بیسویں صدی کی ابتدا میں یہاں اسلام کی تبلیغ شروع ہوئی اور اکثر خانہ بدوش قبائل اس دعوت و تبلیغ سے متاثر ہو کر دائرہئ اسلام میں داخل ہونے لگے۔ریشماں کے دادا ”سخی محمد“ کا تعلق بھی ایسے ہی ایک خانہ بدوش قبیلے سے تھا۔ یہ لوگ گھوڑے اور اونٹ پالتے تھے۔ خانہ بدوش کی کوئی زمین نہیں ہوتی۔ ہجرت ان کا مقدر اور زمین کے مختلف ٹکڑوں پر بنتی اور اجڑتی رہنے والی جھگیاں ان کا مستقبل ہوتی ہیں۔ گھوڑے اور اونٹ پال کر یہ قبائل اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کا بندوبست بھی کرتے تھے اور مسلسل ہجرت کے لیے سواری کی ضرورت بھی پوری کرتے تھے۔ریشماں کے والد حاجی محمد مشتاق ہندوستانی ریاست راجھستان کے شہر بیکانیر میں پیدا ہوئے۔یہ بھی اپنے والد کی طرح گھوڑے اور اونٹ پالتے تھے اور ان کا ٹھکانہ بھی وہی مخصوص ”جھگی“ تھی جو خانہ بدوشوں کی نشانی ہوتی ہے۔ریشماں جی 1947ء کو راجھستان کے ضلع چرو اور تحصیل رتن نگر کے ایک گاؤں ”لوہا“ میں پیدا ہوئیں۔ان کا سنِ پیدائش کہیں کہیں 1948ء بھی بتایا گیا ہے، مہینہ اور تاریخ سے تاریخ آج بھی ناواقف ہے۔خانہ بدوش قبیلوں میں ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کا رواج تھا اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ محمد مشتاق کی پہلی بیوی سے تھیں،دوسری یا پھر تیسری بیوی کی اولاد تھیں۔ تاریخ میں ان کے بہن بھائیوں کا ذکر بھی نہیں ملتا۔ تقسیمِ ہند کے فوراً بعد ریشماں اپنے ماں باپ اور قبیلے کے باقی لوگوں کے ساتھ پاکستان کے شہر کراچی میں آ گئیں۔یہ اس وقت صرف ایک ماہ کی تھیں۔ خانہ بدوش قبائل میں تعلیم کا تصور آج تک پیدا نہیں ہو سکا۔ ان لوگوں کے بچے بھی جانوروں کی طرح پل کر بڑے ہو جاتے ہیں مگر ریشماں جی اس نعمت سے محروم رہنے کے باوجود بھی قبیلے کی سب سے خوش قسمت بچی تھیں، اللہ نے ان کو پرسوز مدھر آواز کے ساتھ سروں کے سنگ چلنے کا سلیقہ بھی پیدائشی طور پر عنایت فرما دیا تھا۔ریشماں جی نے گائیکی کی کوئی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ قبیلے کی عورتیں شادی بیاہ جیسی تقریبات کے علاوہ اولیاء کرام کے مزار پر جا کر گڑوی بجایا کرتی تھیں،ریشماں بھی ان میں شامل ہو گئیں اور جلد ہی اپنی آواز کی وجہ سے قبیلے میں اہمیت کی حامل ہو گئیں۔یہ سلیم گیلانی کی نظر میں آنے سے پہلے سندھ میں اولیا ء کرام کے مزاروں پر صوفیانہ کلام گایا کرتی تھیں۔جہاں شہرت کی بات آئے تو ہم بلاشبہ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ شہرت کی سیڑھی پر ان کا پہلا قدم سلیم گیلانی صاحب کی وجہ سے پڑا مگر بات شناخت کی ہو تو ریشماں جی نے اپنی زندگی کے لاشعوری برسوں میں ہی لوکل آبادیوں میں اپنی پہچان بنا لی تھی۔انہیں چھوٹی محفلوں میں اور مزاروں پر صوفیانہ کلام پیش کرنے کے لیے باقاعدہ بلایا جاتا تھا۔سر سنگیت ان کی فطرت میں شامل تھا اس لیے بنا کسی روایتی تعلیم کے بھی ریشماں جی سروں پر عبور رکھتی تھیں اور حضرت لعل شہباز قلندر کے مزار پر ان کے ”لعل میری پت رکھیو“ میں ان کی آواز کے ساتھ ان کی سنگیت کی لے پر مہارت ہی تھی جس نے سلیم گیلانی کو ان کی طرف متوجہ کر دیا تھا۔ 1960ء میں یہی صوفیانہ کلام ان کی زندگی کا پہلا پیشہ ورانہ قدم بھی ثابت ہوا۔سلیم گیلانی وقت ضائع کیے بغیر انہیں اسٹوڈیو میں لے گئے اور ریڈیو پاکستان سے راجھستانی کوئل کوکنے لگی۔بحیثیت فوک گلوکارہ یہ ریشماں جی کا آغاز تھا اور کیا شاندار آغاز تھا جس نے آن کی آن میں برصغیر کے لوگوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیا۔یہ شہرت اور کامیابی کی طرف ریشماں جی کا پہلا قدم تھا۔یہ گودڑی کے اس لعل کی آواز تھی جس نے کم و بیش چوالیس سال تک کروڑوں لوگوں کو اپنا گرویدہ بنائے رکھا۔
٭……٭……٭
پاکستان ٹیلی ویژن کی بنیاد 1960ء کی دہائی میں رکھی گئی۔ ریشماں جی اس وقت تک ریڈیو پاکستان کے ذریعے مشہور ہو چکی تھیں اس لیے ٹیلی ویژن تک ان کی رسائی بالکل آسان رہی۔یہاں سے ان کی شہرت سرحد پار پہنچنے لگی۔ ساٹھ کی دہائی میں بالی ووڈ پر مشہور فلمی ہیرو اور فلمساز ”راج کپور“ کا راج تھا۔ یہ آواز ان کے کانوں تک پہنچی اور انہوں نے ریشماں جی کواپنی فلم ”بوبی“ کے لیے گانا ریکارڈ کروانے کی پیشکش کی۔یہ فلم 1973میں ریلیز کی گئی تھی جس کے ڈائریکٹر خود راج کپور تھے، رائٹر خواجہ عباس تھے اور اس فلم کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں راج کپور کے بیٹے رشی کپور پہلی مرتبہ مرکزی کردار ادا کر رہے تھے، ان کے مقابل ڈمپل کباڈیا تھیں اور موسیقی ترتیب دینے والے لکشمی کانت پیارے لال تھے۔ریشماں جی اس فلم کے لیے خود کوئی گانا ریکارڈ نہیں کروا سکیں تھیں مگر ان کے گانے ”اکھیاں نوں رہن دے“ کو اردو زبان میں تبدیل کر کے لتا منگیشکر نے گایا تھا۔فلم بلاک بسٹر ثابت ہوئی اور اس میں بڑا ہاتھ میوزک کا تھا۔ہم ایک طرح سے اس فلم کو بولی ووڈ میں ریشماں جی کا آغاز کہہ سکتے ہیں۔
ہم اب 1973ء سے 1983پر آتے ہیں۔ سال 1983ء کو ریشماں جی کا سال یا ”لمبی جدائی“ کا سال کہنا چاہیے۔لمبی جدائی چھ منٹ اور چھبیس سیکنڈ کا ایک ایسا دھماکہ تھا جس نے پلے بیک سنگنگ میں ریشماں جی کو ہمیشہ کے لیے امر کر دیا۔آپ کو شاید حیرت ہو کہ ریشماں جی نے پلے بیک سنگنگ بہت کم کی ہے۔وہ اس شعبے میں تکنیکی مسائل سے بھی دو چار رہتی تھیں اور ان کی منفرد بھاری آواز بھی ان کے راستے میں رکاوٹ بن جاتی تھی مگر ”لمبی جدائی“ کتنی لمبی ثابت ہوئی، اس کا اندازہ آپ اچھی طرح کر سکتے ہیں۔اس گانے کو پاکستان اور ہندوستان کے بے شمار گلوکاروں نے گایا اور یہ گانا آج تک مختلف آواز اور لہجوں میں سنا جا رہا ہے۔آج کا بچہ ریشماں جی سے بھلے ہی ناواقف ہو مگر ”لمبی جدائی“ کو اس نے ضرور گنگنا رکھا ہوتا ہے۔یہ گانا 1983ء میں ریلیز ہونے والی ہندوستانی فلم ”ہیرو“ میں شامل کیا گیا تھاجو فلم ریلیز ہونے کے بعد فلم کی شناخت بن گیا۔اس فلم کے پروڈیوسر اور ڈائیریکٹر ”سبھاش گھئی“ تھے۔سبھاش گھئی اور ریشماں جی کے مابین جان پہچان کروانے والے بھی راج کپور تھے۔فلم کی کہانی سبھاش گھئی،مکتا گھئی اور رام کلکر نے لکھی تھی۔اس فلم کی موسیقی بھی لکشمی کانت پیارے لال نے ترتیب دی تھی۔جیکی شروف اور میناکشی مرکزی کرداروں میں تھے اور آپ کو مزے کی بات بتاؤں کہ اس فلم میں کُل چھ گانے تھے جن میں سے تین لتا منگیشکر نے گائے اور دو گانے منہار اور انورادھا نے گائے،ہماری ریشماں جی کے حصے میں صرف ایک گانا آیا اور اس ایک گانے نے ہندوستانی میوزک کو پچھاڑ کر رکھ دیا۔آپ اگر پرانے گانے نہیں سنتے تب بھی آپ لتا منگیشکر سے اچھی طرح واقف ہوں گے۔ بالی ووڈ انڈسٹری کو کھڑا کرنے میں لتا جی کی آواز کا کتنا ہاتھ ہے، یہ بات پورا ہندوستان اور پاکستان جانتا ہے اور اس فلم میں ان کے اور ریشماں جی کے درمیان ایک اور تین کا مقابلہ تھا جسے ریشماں جی نے صرف جیتا نہیں بلکہ اس فلم میں انہوں نے لتاجی کو ”ناک آؤٹ“ کر دیا جس کا ثبوت یہ ہے کہ اس فلم کی پہچان آج بھی ”لمبی جدائی“ ہی ہے۔فلم کے کسی اور گانے کے حصے میں اتنی شہرت نہیں آ سکی جو ریشماں جی کی آواز کو ملی۔اس گانے نے صحیح معنوں میں ریشماں جی کو برِصغیر کی صف اول کی گلوکاراؤں میں لا کھڑا کیاتھا۔ اس فلم کے بعد ریشماں جی کو بالی ووڈ کی طرف سے آفرز آتی رہیں۔ انہوں نے کچھ فلموں میں اپنی آواز بھی دی مگر پلے بیک سنگنگ کی طرف فطری طور پر ان کا رجحان نہیں تھا۔ان کی پسندیدہ موسیقی اول و آخر صرف صوفیانہ کلام رہی۔ بالی ووڈ بہرحال اس فلم کے بعد ریشماں جی کا کافی عرصے تک دیوانہ رہا۔آپ اس دیوانگی کا اندازہ یوں کر لیجیے کہ ”لمبی جدائی“ کے اکیس سال بعد2004ء میں ریشماں جی کا ایک گانا ”عشق دی گلی وچ“ بھارتی میوزک چارٹ پر ٹاپ ٹین میں شامل رہا۔ان کے چاہنے والوں میں ”اندرا گاندھی“ بھی شامل تھیں۔اندرا گاندھی نے ریشماں جی کو بذات خود بھارت آنے کی دعوت دی تھی جسے ریشماں نے قبول کیا تھا اور وہاں انہیں اتنی عزت اور محبت سے نوازا گیا تھا کہ ریشماں جی مرتے دم تک اندرا گاندھی کی میزبانی کی تعریف کرتی رہیں۔وقت رخصت اندرا گاندھی نے کہا تھا:
”مانگ ریشماں ……کیا مانگتی ہے؟“
ریشماں جی نے کہا تھا۔
”میرے آبائی گاؤں ”لوہا“ تک جانے کے لیے کوئی راستہ نہیں ہے…راستہ بنوا دیجیے۔“
اور اگلی مرتبہ جب ریشماں جی بھارت گئیں تو ان کے گاؤں لوہا تک ”ریشماں روڈ“ کے نام سے پختہ سڑک بن چکی تھی،گاؤں میں لاری اڈہ بن چکا تھااور بجلی بھی پہنچا دی گئی تھی۔یہ سب ایک پرستار کا اپنے پسندیدہ ستارے کو خراجِ عقیدت تھا۔
ریشماں جی کے زمانے کے بالی ووڈ کے تمام مشہور ستارے انہیں سنتے اور پسند کرتے تھے اور انہیں بھارت آنے کی دعوتیں ملتی رہتی تھیں۔یہ ایک مرتبہ خواجہ معین الدین چشتی کے مزار پر حاضری دینے گئیں۔دلیپ کمار صاحب کو پتا چلا تو فوراً ملنے کے لیے بے تاب ہو گئے اور ملاقات میں انہوں نے باقاعدہ شکوہ بھی کر دیا کہ انہیں مطلع کیے بغیر وہ آئیں اور شاید واپس بھی چلی جاتیں۔
دلیپ کمار صاحب نے انہیں ملتے ہی جو پہلے لفظ کہے تھے وہ آپ بھی ملاحظہ کیجیے۔
”مجھے اگر بروقت آپ کے آنے کی اطلاع مل جاتی تو میں خود آپ کے استقبال کے لیے موجود ہوتا۔“
دھرمیندر،سنیل دت،امیتابھ بچن،دلیر مہدی،گرداس مان،سردول سکندر اور ان جیسے بے شمار مشہور ہستیاں ہماری ریشماں جی کے پرستاروں میں شامل تھیں۔
٭……٭……٭
پاکستانی میوزک پر ریشماں جی کے اثرات کافی گہرے اور دیرپا رہے۔صوفیانہ کلام میں کافی گلوکاروں اور گلوکاراؤں نے ان کی پیروی کی اور نام کمایا۔عاطف اسلم پاکستانی پاپ میوزک کا جانا پہچانا نام ہیں،انہوں نے بھی ریشماں جی کی”لمبی جدائی“ گا کر اپنی پہچان بنائی اور خوب نام کمایا۔ہم یہ بالکل نہیں کہہ سکتے کہ کسی نے ان کے گانوں کا حق ادا نہیں کیا مگر ریشماں جی تک پہنچنا ناممکن ہے کیونکہ وہ ”God Gifted“ تھیں۔ ان کے گانے کا انداز بالکل فطری تھا۔ ان کے سروں میں ایسا سحر تھا کہ انہیں ساز کی مدد کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی۔ 12برس کی عمر میں ”گڑوی“ بجا کر ”لعل میری“ سے لوگوں کو دھمال پر مجبور کرنے والی گلوکارہ کے فن کوچھو لینا آسان نہیں تھا۔جنرل ایوب خان نے انہیں بلاوجہ ”بلبلِ صحرا“ کا خطاب نہیں دیا تھا۔ وہ واقعی صحرا کی بلبل تھیں جو آج کے زمانے میں ناپید ہو چکی ہے۔ جنرل ایوب خان،یحییٰ خان، ذولفقار علی بھٹو،غلام اسحاق خان،پرویز مشرف اور ان جیسی مشہور شخصیات ریشماں جی کو بے حد شوق سے سنا کرتی تھیں۔
٭……٭……٭
ریشماں جی ذاتی زندگی میں بے حد سادہ اور بھولی بھالی معصوم عورت تھیں۔انہوں نے ہارمونیم پلیئر ”خان محمد“ سے شادی کی تھی جس سے ان کے دو بیٹے ساون اور لطیف پیدا ہوئے، ایک بیٹی ”لے پالک“ تھی جس کا نام کہیں پر روبی اور کہیں پر خدیجہ لکھا گیا ہے۔ساون اور روبی دونوں گلوکاری کے شعبے سے منسلک ہیں۔ساون کے نام پر ایک مرتبہ انہوں نے بتایا تھا کہ وہ ساون کے مہینے میں پیدا ہوا تھا اس لیے اس کا نام ساون رکھا گیا تھا۔ان کے شوہر خان محمد نے بعد ازاں دوسری شادی کرلی۔ 1998ء میں ان کے شوہر خان محمد انتقال کر گئے تھے۔
ریشماں جی خوبصورت دل کی مالک سادہ لوح خاتون تھیں،دنیا کی چالاکیوں سے قطعی ناواقف تھیں،ہر کسی کو اپنا دوست اور مخلص سمجھ بیٹھتی تھیں کیونکہ یہ ان کے اپنے اوصاف تھے اور وہ اسی نظر سے دنیا کو دیکھنے کی عادی تھیں۔انہوں نے اپنی پوری زندگی میں لین دین کے معاملات پر کسی سے بحث نہیں کی۔وہ بات کو جھگڑے تک پہنچنے کی نوبت نہیں آنے دیتی تھیں بلکہ چپ سادھ کر راستہ بدل لیتی تھیں۔نرم دل،ہمدرد،مہربان اور مذہب پسند خاتون تھیں۔انہوں نے مسجد بھی بنوائی،اچھے وقتوں میں لوگوں کی مدد بھی کی اور دنیاوی معاملات میں مروت کو ہمیشہ سب سے اوپر رکھا۔
کہا جاتا ہے کہ پلے بیک سنگنگ سے ان کی کنارہ کشی کی وجہ چند ایک فلم پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز تھے جنہوں نے ان کی بھاری آواز کو جواز بنا کر انہیں کہا تھا کہ وہ فلمی گانوں کے لیے موزوں نہیں ہیں مگر میں اس بات کو نہیں مانتا۔میرے نزدیک سچ یہ ہے کہ ریشماں جی کو فلموں کے لیے گانا سرے سے پسند ہی نہیں تھا۔ انہیں فوک میوزک پسند تھا اور اس میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔میرا یقین ہے کہ اگر وہ فلموں کے لیے اپنی آواز دینے میں دل چسپی رکھتیں تو آج بولی ووڈ اور بالی ووڈ میں سب سے زیادہ گائے جانے والے گانے انہی کے ہوتے۔
٭……٭……٭
ریشماں جی کو پہلی مرتبہ 1980ء میں گلے کی تکلیف ہوئی تھی۔ اس وقت علاج سے بہتر ہونے کے بعد وہ چوبیس سال تک پرفارم کرتی رہیں۔2005ء میں انہوں نے گلوکاری کو خیرباد کہا تھا اور 2007ء کے آخر میں وہ دوبارہ گلے کی تکلیف میں مبتلا ہوئیں اور یہ اذیت ناک حقیقت سامنے آئی کہ وہ گلے کے کینسر میں مبتلا ہیں۔ انہوں نے بہادری سے چھے سال تک کینسر کا مقابلہ کیامگر قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔صحرا کی بلبل 3نومبر 2013ء کو ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی۔ لمبی جدائی گا کر دنیا کو جیتنے والی بالآخر دنیا کو لمبی جدائی دے کر چلی گئی۔ریشماں جی میرے اللہ کی قدرت کا ایک کرشمہ تھیں،یہ میرے رب کی طاقت ہے جو کیچڑ میں کنول اگا دیتا ہے،صحرا میں پھول کھلا دیتا ہے،گودڑی میں لعل پیدا کر دیتا ہے،بے مول وجود کو انمول روشنی دے کر دنیا کی آنکھیں چکاچوند کر دیتا ہے اور پھر اس انمول روشنی کو واپس لے لیتا ہے۔
ریشماں جی کو حکومتِ پاکستان کی جانب سے ”لیجنڈز آف پاکستان“ اور ”ستارہ ئامتیاز“ جیسے اعزازات سے نوازا گیا۔ ریشماں جی اب ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں مگر ان کے گائے ہوئے کلام رہتی دنیا تک زندہ رہیں گے۔ جو ایک مرتبہ انہیں سن لے گا وہ ہمیشہ انہیں سنتا ہی رہے گا۔ہر آنے والی نسل میں کوئی نہ کوئی ایسا موجود رہے گا جو کہے گا:
”صحرا میں کبھی بلبل آئی تھی“
٭……٭……٭
ریشماں جی نے جو بھی گایا،لاجواب گایا۔ان کا کون سا گانا آپ کو بتاؤں اور کون سا چھوڑ دوں؟ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے اس لیے میں آپ کو صرف وہ گانا بتاؤں گا جو مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔
اکثر شبِ تنہائی میں
اکثر شبِ تنہائی میں
کچھ دیر پہلے نیند سے
گزری ہوئی دلچسپیاں
بیتے ہوئے دن عیش کے
بنتے ہیں شمع زندگی
اور ڈالتے ہیں روشنی
میرے دلِ صدِ چاک پر
اکثر شبِ تنہائی میں
ایک مرتبہ ضرور سنیے گا۔شائد آپ بھی کہہ اٹھیں ”صحرا میں کبھی بلبل آئی تھی“
٭……٭……٭
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ختم شد
Alif Kitab Publications Dismiss