بچے کی عمر قریب سات سال تھی ۔ اصغری بیگم پریشانی کے عالم میں بار بار اپنے شوہر کی طرف دیکھتی اور پھر پلٹ کر بھری آنکھوں سے بچے کی طرف دیکھتی ۔ شوہر کے سر پر ٹوپی ،ہاتھ میں تسبیح اور زبان پر ذکر الٰہی جاری تھا،اس کی آنکھیں بند تھیں اور چہرے پر وجد کا اک عجب سا عالم تھا۔ گھڑی عصر کی گھنٹی بجانے والی تھی اور گھر کے صحن میں گمبھیر خاموشی چھائی ہو ئی تھی۔بالآخر اصغری بیگم کا حوصلہ جواب دے گیا،اس نے بے قرار ہو کر ستے ہوئے چہرے اور خشک پڑتے ہونٹوں والے بچے کو حکم دے ڈالا۔
‘‘توڑ دو روزہ ۔۔۔تم ابھی بچے ہو ۔۔۔روزہ تم پہ فرض نہیں۔’’ ماں کے حکم پر گھر کے ہر فرد کی نظریں سات سال کے بچے کی طرف اٹھ گئیں۔ اس کی بڑی بہنیں اور بھائی ترغیب دیتی نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگے جیسے کہہ رہے ہوں ۔
‘‘سو چ کیا رہے ہو ۔۔۔ماں ٹھیک کہتی ہے ،تم ابھی بچے ہی تو ہو ۔۔۔چلو شاباش ۔۔۔جلدی سے ٹھنڈا ٹھنڈا پانی پی کر اپنی پیاس بجھا لو۔ ’’
گھر میں صرف ایک فرد تھا جس کی آنکھیں اب بھی بند تھیں ،اور ہونٹ رکے بنا مسلسل ہل رہے تھے۔وہ اس بچے کا باپ تھا۔بچے کی نظروں میں باپ کا چہرہ تھا،اس نے پھر ماں اور بہن بھائیوں کی طرف دیکھا،اس کی آنکھوں میں ہلکی سی بے چارگی تھی جیسے وہ بے بس ہو ،ماں کا حکم بجا لانا چاہتا ہو مگر کوئی اسے روک رہا ہو ۔سب جانتے تھے کہ وہ رکاوٹ کیا تھی ۔ایک بہن نے ہمت کی اور گلاس میں پانی لے کر اس کے سر پر پہنچ گئی ،مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور پانی کا گلاس آگے بڑھایا ۔بچے نے پیاس کی تاب نہ لاتے ہوئے گلاس کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ آذانِ عصر کی پہلی گونج اس کے کانوں میں پڑی ‘‘اللہ اکبر! اللہ اکبر! ’’ اس کا بڑھا ہوا ہاتھ پیچھے ہٹ گیا،چہرے کی بے چارگی پختہ عزم کی روشنی میں تحلیل ہو گئی اور اس کے خشک گلے سے مضبوط آواز سن کر سب حیران رہ گئے۔
‘‘اب پانی نہیں پیوں گا،ماں ۔۔۔اب روزہ نہیں توڑوں گا۔’’ اس کی آواز سن کر اس کے باپ کے تسبیح پر چلتے ہوئے ہاتھ اور ہلتے ہونٹ پل بھر کے لیے رکے ، اور مسکرا دیے ۔اس کی بند آنکھوں سے آنسوؤں کے دو قطرے نکلے اور اس کے نورانی چہرے پر دو لکیریں کھینچتے ہوئے غائب ہو گئے۔
یہ سات سال کے بچے کا پہلا روزہ تھا،اسی بچے نے سات سال کی عمر سے لیکر اپنی زندگی کی آخری سانس تک ایک روزہ نہیں چھوڑا، اسی بچے نے آگے چل کر اپنی پرُ درد آواز میں اللہ کی حمد و ثناء اور میرے نبی ﷺ کی تعریف کو دنیا بھر میں پہنچا کر عالمی شہرت حاصل کی اور یہی وہ بچہ ہے جسے قوالی کے آخری اور حالیہ دور کا شہنشاہ مانا جاتا تھا ۔ اس بچے کا نام امجد فرید صابری تھااور ذکر اللہ میں مصرو ف وہ باپ دنیا کا مایہ ناز قوال غلام فرید صابری تھا۔ہم آگے چلنے سے پہلے قدرت کے اس عظیم کرشمے کی بنیادوں میں جا کر یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ ان میں آخر ایسا کیا چھپا ہوا ہے کہ جس کی وجہ سے ہر بچہ امجد فرید صابری نہیں ہوتا۔
٭
قوالی کا پہلا دور خواجہ معین الدین کے زمانے سے شروع ہوتا ہے ۔ مؤرخین کے مطابق اس زمانے کی قوالیوں نے نوے لاکھ سے زائد لوگوں کو دائرہ اسلام میں داخل کیا تھا۔اس وقت دنیا پر بادشاہت کا راج تھا۔ لاکھوں کروڑوں لوگوں کی زندگیاں کسی ایک شخص کے موڈ ،مزاج اور زبان پر منحصر تھیں ۔ بادشاہوں کے درباروں میں ان کی شان میں قصیدے پڑھنے کے لیے مخصوص لوگ ہوا کرتے تھے جنہیں آج کی زبان میں شاعر کہا جا سکتا ہے ۔ یہ شاعر حکمرانِ وقت کے سامنے کھڑے ہو کر اس کی تعریف میں اشعار پیش کیا کرتے تھے اور انعام و اکرام سے نوازے جاتے تھے ۔قوالی کی ابتدا بھی اسی طرح کے اشعار سے ہوئی جن میں کسی بادشاہ کی بجائے اللہ کی عظمت و بڑائی بیان کی جانے لگی ۔ یہ سلسلہ خواجہ معین الدین کے زمانے سے شروع ہوا جن کی تاریخ 1141ء سے 1236ء میں ملتی ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ابتدائی قوالی اللہ کی بڑائی و عظمت بیان کرنے کے لیے سادہ تعریفی کلمات کی شکل میں پیش کی جاتی تھی جو بارہویں صدی کی آخر میں یا تیرھویں صدی کی ابتداء میں شروع ہوئی۔
قوالی کا دوسرا دور عبدالحسن یامین الدین خسرو کا زمانہ بتا یا جاتا ہے جنہیں عرف عام میں امیر خسرو کے نام سے جانا جاتا ہے ۔امیر خسرو صوفی شاعر،رائٹر اور اسلامک ہسٹری کے محقق تھے ،ان کی زندگی میں مذہبی رنگ نمایاں ملتا ہے چنانچہ ان کے کلام کو قوالی کی دوسری طرز یا شکل سمجھا جاتا ہے جس میں جدت نہیں ملتی مگر طرزِ مختلف سمجھی جاتی ہے ۔ اس کے بعد انیسویں صدی تک قوالی مختلف زبانوں میں مگر ایک ہی طرز پر پیش کی جاتی رہی ۔ قوالی کا تیسرا دور بھی ہندوستان کی سر زمین پر ہی شروع ہوا ۔ یہ قوالی کی ترویج و ترقی کا دور تھا۔ برصغیر کے نامی گرامی قوالوں نے اس زمانے میں اپنا نام پیدا کیا اور قوالی کو ایک مخصوص فن کے طور پر متعارف کروایا ۔ فتح علی خان،منشی ریاض الدین ،بدر علی خان، بہاؤالدین خان، نصرت فتح علی خان ،عزیز میاں ، مقبول احمد صابری اور غلام فرید صابری جیسی شہرہ آفاق ہستیاں اسی زمانے میں پیدا ہوئیں اور اپنے فن کو پوری دنیا کے سامنے پیش کیا ۔
آپ اگر قوالی کے بارے میں ایک فیصد بھی جانتے ہیں تو صابری برادرز کا نام آپ کے لیے یقینا جانا پہچانا ہو گا۔ یہ صابری برادرز مقبول احمد صابری اور غلام فرید صابری تھے۔ صابری برادرز کی خاندانی تاریخ کلاسک میوزک کے مؤجد تان سین کے ساتھ جا کر ملتی ہے جو مغل بادشاہ اکبر کے دربار میں اپنا فن پیش کیا کرتے تھے ۔ آپ کبھی تان سین کی ہسٹری پڑھیں اور پھر غلام فرید صابری صاحب کی زندگی کے اوراق پلٹ کر دیکھیں ۔۔۔آپ جان جائیں گے کہ ہر بچہ امجد فرید صابری کیوں نہیں ہو سکتا؟
غلام فرید صابری کلیانہ ہندوستان میں 1930ء میں پیدا ہوئے ۔قوالی کی تعلیم حاصل کی اور اپنے فن سے بہت جلد مشہور ہوگئے۔ مگر تقسیم ِہند کے بعد کراچی آنے کے بعد ان کی زندگی میں بہت ساری آزمائشیں ایک ساتھ اتر آئیں جن میں سرِفہرست روزی روٹی کا بندوبست تھا۔ غلام فرید صابری نے اس زمانے میں ہر طرح کی چھوٹی موٹی مزدوری کی ،وہ اینٹیں اٹھانے کا کام بھی کرتے رہے ۔ کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں انہوں نے اپنا چھوٹا سا گھر اپنے ہاتھوں سے اینٹیں اٹھا اٹھا کر بنایا تھا۔ حالات میں کچھ بہتری آئی تو اپنے فطری ٹیلنٹ سے محبت واپس آنے لگی۔ ان کی آواز و انداز دیکھ کر انہیں گانوں اور غزلوں کی آفرز بھی ہوئیں مگر غلام فرید صابری کو صرف قوالی سے محبت تھی بلکہ محبت سے زیادہ عشق تھا۔ انہوں نے اپنے بھائی مقبول احمد صابری کے ساتھ پاکستان کی سر زمین پر دوبارہ قوالیاں پیش کرنا شروع کیں اور قلیل عرصے میں ‘‘صابری برادرز ’’ پور ی دنیا میں مشہور ہو گئے۔ غلام فرید صابری کے سب سے بڑے بیٹے ثروت فرید صابری نے لندن میں ایک انٹرویو دیا جس میں وہ ایک دلچسپ واقعہ سناتے ہیں کہ نصرت فتح علی خان کی ملاقات فرانس میں غلام فرید صابری سے ہوئی ، نصرت فتح علی خان چونکہ عمر میں ان سے کافی چھوٹے تھے اس لیے بڑے مؤدب سے انداز میں کہنے لگے ۔
‘‘آپ سے ایک سوال پوچھنا تھا ’’؟ غلام فرید صابری کے استفسار پر نصرت صاحب کہنے لگے ۔
‘‘میں دنیا کے جس کونے میں جا کر قوالی سناتا ہوں وہاں لوگ میرے پاس آ کر مجھ سے ایک سوال ضرور کرتے ہیں ۔۔۔ آپ صابری برادرز کو جانتے ہیں؟’’
غلام فرید صابری صاحب کے پانچ بیٹے با لترتیب ثروت فرید صابری ، عظمت فرید صابری ، امجد فرید صابری ، عصمت فرید صابری اور طلحہ فرید صابری ہیں ۔اللہ نے انہیں چھ بیٹیوں سے بھی نوازا تھا۔ہماری آج کی تحریر ان کے تیسرے بیٹے اور آٹھویں اولاد ‘‘امجد فرید صابری ’’ سے متعلق ہے جو بلاشبہ قوالی کے چوتھے اور موجودہ دور کا ایک بہت بڑا ستارہ تھے ۔ یہ کہنا قطعاً غلط نہ ہو گا کہ قوالی کی تصویر میں موسیقی کے تمام رنگ اپنے پورے لوازمات کے ساتھ بھرنے والے مصور امجد فرید صابری ہی تھے ۔
٭
امجد فرید صابری 23دسمبر 1976 ء بروز بدھ کو کراچی میں پیدا ہوئے۔یہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا،آخری عشرہ چل رہا تھا اور رمضان کا آخری بدھ تھا۔ یہ غلام فرید صابری کے تیسرے بیٹے اور آٹھویں اولاد تھے۔ کل گیارہ بہن بھائیوں میں آبائی فن کی دستار صرف امجد فرید صابری نے پہنی۔ امجد کا بچپن کا عام بچوں جیسا بالکل بھی نہیں تھا کیونکہ ان کے پیدا ہوتے ہی ان کے والد کی نظرِ انتخاب ان کے اوپر پڑ چکی تھی ۔ غلام فرید صابری استادوں کے استاد تھے ۔ اپنے ہی گھر میں کھلنے والے پھول کی مہک سے کیسے انجان رہ سکتے تھے ،چنانچہ امجد صابری کو کم عمری میں ہی شاگردی میں لے لیا گیا۔ غلام فرید صابری کیسے استاد تھے ؟ اس کا جواب امجد نے خود ایک انٹرویو میں دیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے والد صاحب چار سال کی عمر سے ہی انہیں تہجد کے وقت یعنی صبح کے ساڑھے تین سے چار کے درمیان اٹھا دیا کرتے تھے ۔ امجد بچے تھے اس لیے کئی مرتبہ آنا کانی کرتے ،ایسے میں ان کے والد بید کی چھڑی اٹھا لیتے اور تہجد کے وقت ہی گھر کے سارے مکین جاگ اٹھتے ۔امجد کی والدہ اور استاد غلام فرید صابری کے درمیان بے شمار مرتبہ اسی بات پر لڑائی ہوا کرتی مگر جیت غلام فرید صاحب کی ہوتی ۔جاگنے کے بعد سب سے پہلا مرحلہ وضو ،نماز اور دعا کی تعلیم کا ہوا کرتا ۔غلام فرید صابری تہجد گزار تھے ،یہ نوافل سے فارغ ہو کر امجد سے ریاض شروع کرواتے ۔یہ ریاض راگ بھیرویں سیکھنے کے لیے کیا جاتا تھا ۔اس ریاض کی رودار بڑی درد ناک بلکہ خوفناک ہے ۔امجد کئی مرتبہ والد صاحب سے پٹتے ،روتے دھوتے مگر ریاض کرنا پڑتا ۔اس سخت روٹین کے مثبت اثرات بہت جلد رونما ہونے لگے اور اوائل عمری میں ہی امجد کے اندر کا فطر ی ٹیلنٹ باہر آنے لگا۔پہلی بڑی کامیابی صرف آٹھ سال کی عمر میں حاصل کی ۔1982ء میں برصغیر کے ممتاز اداکار محمد علی جنہیں ‘‘شہنشاہِ جذبات’’ کے نام سے آج بھی یاد کیا جاتا ہے ،ان کی فلم ‘‘سہارے ’’ میں بطور چائلڈ اسٹار کام کیا۔اس فلم میں انہوں نے علامہ اقبال کی مشہور زمانہ نظم ‘‘لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری’’ پڑھی تھی۔شبنم اور محمد علی کی اس فلم نے باکس آفس پر کوئی خاص کمال نہ دکھایا مگر امجد صابری کی بھولی بھالی صورت اور خوبصورت آواز کے لیے لوگ آج بھی ‘‘سہارے’’ کی ‘‘لب پہ آتی ہے دعا ’’ سنتے رہتے ہیں۔
ان کی اس پہلی کامیابی کے پیچھے بھی ایک دلچسپ صور تحال ہے۔فلم کے ڈائریکٹر وزیر علی اور موسیقار نیاز احمد غلام فرید صابری صاحب کے گھر کے چکر کاٹا کرتے ۔غلام فرید صابری امجد کی ماں اصغری بیگم کی طرف دیکھتے اور وہ کہتیں ‘‘مجھے نہیں کروانا اپنے بچے سے فلموں میں کام۔’’ دونوں واپس لوٹ جاتے ۔بالآخر ایک دن امجد کی ماں کو ترس آ ہی گیا اور یوں امجد کے بچپن کی خوبصورت یاد ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گئی ۔اب ہم جب چاہیں ان کے بچپن کو اور ان کے بچپن کی آواز کو سن سکتے ہیں۔
12سال کی عمر تک وہ باقاعدہ اپنے والد صاحب اور چچا مقبول احمد صابری کے ساتھ اسٹیج پر بیٹھنے لگے تھے ۔امجد کے سب سے بڑے بھائی ثروت فرید صابری ان دنوں اپنے والد صاحب کے مینیجر کے فرائض انجام دیا کرتے تھے ۔بی کام کرنے کے بعد امجد اعلیٰ تعلیم کے لیے آسٹریلیا چلے گئے مگر 1994ء میں اپنے والد غلام فرید صابری کی وفات کا سن کر وہ تعلیم ادھوری چھوڑ کر واپس پاکستان آ گئے کیونکہ اب انہیں اپنے والد صاحب کی جگہ سنبھالنی تھی۔ پورے خاندان میں امجد صابری کے علاوہ کوئی ایسا شخص موجود نہ تھا جس کے سر یہ ذمہ داری ڈالی جا سکتی ،چنانچہ یہاں سے امجد صابری صاحب نے اپنے فن کو لے کر آگے چلنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
سال 1996 ء میں امجد صابری پہلی مرتبہ اپنے والد صاحب کے جانشین اور نئے دور کے قوال کے روپ میں عوامی سطح پر ابھرے ۔ ان کا پہلا بڑا پروگرام ‘‘پاک پتن شریف’’ پر ہوا جہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی ۔ اس پہلے باقاعدہ پروگرام میں انہوں نے اپنے والد صاحب کی گائی ہوئی قوالی ‘‘تاجدارِ حرم ’’ بالکل نئے اورمنفرد انداز میں پیش کر کے سننے والوں کوجھومنے پر مجبور کر دیا ۔ یہ قوالی کے چوتھے دور کی ابتدا تھی ۔1997ء میں انہوں نے ہندوستان کے لئے رخت سفر باندھا اور اجمیر شریف پر حاضری دی ۔ یہاں بھی ان کے لئے قوالی کا ایک پروگرام منعقد کیا گیا تھا جس میں قوالی پیش کر کے انہوں نے ہندوستان میں داد و تحسین سمیٹی ۔ 1998ء میں ان کا پہلا آڈیو البم ‘‘تاجدارِ حرم’’ ریلیز ہوا جس نے صحیح معنوں میں انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا ۔امجد صابری کی خاص بات یہ تھی کہ انہوں نے اپنے والد صاحب اور ماضی کے مشہور ترین قوالوں کی طرز اور لے کو اچھی طرح سمجھا ضرور مگر خود پرفارم کرتے وقت انہوں نے جس انداز میں قوالی کی طرز میں جو تبدیلیاں کیں اور جدت کو جس خوبصورت انداز میں متعارف کروایا اس نے آن کی آن میں قوالی کے چاہنے والوں کے دلوں میں گھر کر لیا۔ امجدنے آگے چل کر خود کواپنے والد صاحب کی طرح صرف قوالی تک محدود نہیں رکھا تھا بلکہ انہوں نے صوفیانہ کلام ،نعت شریف ،حمد وثنااور گلوکاری اور پھر موسیقاری میں بھی اپنا لوہا منوا لیا تھا ،مگر اپنے کیرئیر کی ابتدا میں قوالی ان کی توجہ کا خاص الخاص مرکز رہی ۔ قوالی میں موسیقی کو اس انداز میں شامل کرنا کہ سننے والوں کا سرورِ قوالی بھی قائم رہے اور وہ جھوم جھوم کر قوالی میں شامل ہونے والی نت نئی طرز اور لے کو بھی قبول کرتے چلے جائیں ۔۔۔یہ امجد صابری کا اصلی کارنامہ ہے ۔
اگلا پروگرام ‘‘لعل شہباز قلندر’’ کے مزار پر ہوا ۔اس پروگرام کو مرثیہ خواں اسد جہاں نے ترتیب دیا تھا ۔یہاں امجد صابری نے کئی صوفیانہ کلام وقفے وقفے سے پیش کیے اور داد سمیٹی ۔امجد نے زیادہ تر اپنے والد غلام فرید صابری کا گایا ہوا کلام پیش کیا مگر خاص بات یہ ہے کہ ان کی تمام قوالیاں اپنے والد صاحب کی قوالیوں سے بالکل مختلف اور نیا رنگ لیے ہوئے ہیں جنہیں سن کر بے اختیار ‘‘سبحان اللہ’’ کہنے کو دل چاہتا ہے ۔اس کے بعد امجد نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔وہ جو بھی گاتے گئے سب ہٹ ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ امجد پاکستان کی سرحدوں سے نکل کر برصغیر اور پھر پوری دنیا میں مشہور ہو گئے۔کینیڈا میں ایک محفل ِ نعت میں شریک ہوئے ،نعت شریف پیش کی اور ساتھ ہی بالکل غیر روایتی انداز میں ‘‘ملتا ہے کیا نماز میں سجدے میں جا کے دیکھ’’ بھی گا کر سنا دی۔محفل میں غیر مسلم بھی شریک تھے ،ان میں سے چند ایک نے وہیں اسلام قبول کیا ،بعد ازاں اس محفل کی ویڈیو اور آڈیو ریلیز ہوئی اور کینیڈا میں کافی تعداد میں لوگ مسلمان ہوئے۔آپ دوسرا رخ بھی ملاحظہ کیجیے۔ بھارتی سپر اسٹار اجے دیوگن کی فلم کے لیے قوالی ریکارڈ کروا دی اور اس فلم کے بعد انہیں قوالی کا ‘‘راک اسٹار’’ کہا جانے لگا۔
یہ سب جان کر آپ یقینا حیران ہوں گے مگر امجد تو ایسے ہی تھے۔ان کی بنیادوں میں صوفی ازم بھی تھا اورموسیقی بھی ،والد صاحب کی حمد وثناء بھی تھی اور تان سین کے آگ لگا دینے والے راگ بھی ،ان کے فن میں سادگی بھی تھی اور اسٹائل بھی تھا۔ وہ نعت پڑھتے تو رلا دیتے تھے ،حمد پڑھتے تو اللہ سے قریب کر دیتے اور قوالی پڑھتے تو سننے والے جھوم اٹھنے پر مجبور ہو جاتے ۔ امجد کی آواز میں اللہ نے قدرتی طور پر ایک درد سابھر دیا تھا جسے سن کر لوگ مبہوت ہو جایا کرتے ۔ خاص طور پہ نعت پڑھتے وقت جب وہ آنکھیں بند کر تے تھے تو لوگوں پر رقت طاری ہو جایا کرتی ۔ انہوں نے مختلف نعتیہ شاعروں کا کلام پڑھا ہے جن میں پیام سہالوی ،پرنم الہٰ آباری،بہزاد لکھنوئی اور امام احمد رضا بریلوی جیسے شاعر شامل ہیں۔ جو قوالیاں ان کی شہرت کی وجہ بنیں ان میں ‘‘تاجدار حرم’’ ،‘‘ملتا ہے کیا نماز میں سجدے میں جا کے دیکھ’’،‘‘خواجہ کی دیوانی’’،‘‘مست قلندر’’ ،‘‘جس نے مدینے جانا’’ ،‘‘میرے خواجہ پیا’’،‘‘یا محمد نور ِمجسم’’،‘‘علی علی ہے’’ اور اس کے علاوہ مشہورِ زمانہ ‘‘بھر دو جھولی میرے یا محمد’’ شامل ہیں۔
2015ء میں بھارتی سپر اسٹار سلمان خان نے اپنی فلم ‘‘بجرنگی بھائی جان’’ میں اس قوالی کو امجد صابری کی اجازت کے بغیر عدنان سمیع کی آواز میں شامل کیا تھا جس پر امجد صابری نے قانونی چارہ جوئی کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا مگر بعد ازاں سلمان خان نے ان سے فون پر بات کی جس کے بعد انہوں نے معاملہ ختم کر دیا تھا۔‘‘بھر دو جھولی’’ ایک ایسی قوالی ہے جسے کوئی عام سا گلوکار بھی گا دے تو خاص ہو جائے ، میں بہر حال یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ عدنان سمیع اس پلیٹ فارم پر صابری برادرز اور امجد فرید صابری کی گرد کو بھی نہیں پا سکتے۔
الیکٹرانک میڈیا کی ترقی نے امجد فرید صابری کی مصروفیات میں اور بھی اضافہ کر دیا۔وہ آئے دن کسی نہ کسی چینل پر نعت پڑھتے ،حمد و ثناء پیش کرتے ،قوالی گاتے یا پھر انٹرویو دیتے ہوئے نظر آتے تھے۔کئی مرتبہ ایک دن میں تین چار چینلز پر بھی جانا پڑتا تھا۔مارننگ شوز میں اکثر نظر آیا کرتے تھے ۔اس کے علاوہ دیگر پروگرامز میں بھی شرکت کرتے تھے ،کامیڈی شوز میں بھی آنا جانا لگا رہتا تھا ۔پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں انہوں نے اپنے فن سے ملک کا نام خوب روشن کیا، البتہ یہ الگ بات ہے کہ انہیں سفر کرنا بالکل بھی پسند نہیں تھا۔ان کے بڑے بھائی ثروت بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ ان سے ملنے کے لیے لند ن پہنچے ،بے حال تھے ،اوپر سے ثروت کو کسی دوسرے شہر میں کسی خاص کام سے اسی دن جانا تھا جو کہ بہت ضروری بھی تھا۔اب وہ بڑے بھائی تھے ،وہ بھی ایک دو سال نہیں بلکہ پورے دس سال،چنانچہ انہوں نے زبردستی گاڑی میں بٹھا لیا اور چل پڑے ،بتاتے ہیں کہ امجد پورے راستے میں پچھلی سیٹ پر کروٹیں بدلتے رہے ۔
امجد فرید صابری صاحب نجی زندگی میں بالکل ایک معمولی عام آدمی کی طرح تھے۔ان کی سادگی کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ ایک کامیاب قوال ،نعت خواں اور موسیقار ہونے کے باوجود انہوں نے کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں اپنے والد صاحب کے بنائے ہوئے عام سے گھر میں اپنی بہت مختصر مگر پوری زندگی گزار دی۔ان کی شادی 2002ء میں نادیہ صابری سے ہوئی ۔ شادی سے پہلے کا صرف ایک واقعہ ملتا ہے کہ کسی کلینک میں دونوں کی ملاقات ہوئی جو بعد ازاں پسندیدگی میں تبدیل ہوئی اور امجد صابری نے انہیں پروپوز کر دیا ۔یہ واقعہ چونکہ سوشل پلیٹ فارم سے ملا ہے اس لیے مستند نہیں ہے ۔ان کے کسی انٹرویو میں اس بات کا تذکرہ نہیں ملتا یا پھر میں وہ انٹرویو دیکھ نہیں پایا جس میں انہوں نے ایسا کوئی واقعہ بیان کیا ہو۔ ان کے چار بچے ہیں ،دو بیٹیاں اور دو بیٹے ۔بیٹوں کے نام مجدد فرید صابری اور عون فرید صابری ہیں ۔گھریلو زندگی اپنے والدغلام فرید صابری صاحب کے برعکس کافی مختلف ہے ،نرم مزاج ،محبت کرنے والے ،معاف کر دینے والے ،پورے خاندان کے لیے ایک سایہ دار پیڑ کی طرح تھے۔ اگرچہ کے بہنوں بھائیوں میں آٹھواں نمبر تھا مگر جو رتبہ اور عزت ومقام اللہ نے انہیں دیا تھا اس کے بعد ان کے پورے خاندان کے لیے وہی سب سے بڑے تھے۔ان کے دونوں چھوٹے بھائی عصمت اور طلحہ انہیں باپ کا درجہ دیتے ہیں ۔حیرت اور تعجب کی بات یہ ہے وہ جیسے گھر کے اندرتھے ویسے ہی گھر کے باہر تھے۔عالمی شہرت یافتہ فنکار تھے مگر پروٹوکول نام کی کسی چیز کو تسلیم کرنے کے لیے ہرگز تیار نہ تھے ،ہر خاص و عام سے ملنے کے لیے تیار رہتے ۔
ایک دلچسپ واقعہ پیشِ خدمت ہے ۔ ایک مرتبہ گھر سے نکلے ،مین روڈ پر پہنچے تو کسی نے ہاتھ سے گاڑی روکنے کا اشارہ کیا ،امجد سمجھے شائد کوئی پرستار ہو گا ۔ گاڑی روکی ،دروازہ کھولا اور باہر نکلے ۔ اجنبی آدمی کے چہرے پر پہچان کا کوئی عکس موجود نہیں تھا، اسے لفٹ کی ضرورت تھی ۔ امجد صابری صاحب نے اسے فرنٹ سیٹ پر اپنے ساتھ بٹھالیا اور پوچھا ‘‘کہاں جانا ہے ’’؟ اس نے بتا دیا ۔اسے اس کی منزل پر چھوڑا اور پھر اپنے راستے چل دیے۔امجد صابری ہر کسی کو دستیاب تھے ۔ انہوں نے دنیا بھر میں دوست بنائے اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان کا ہر دوست یہی سمجھتا ہے کہ امجد سب سے زیادہ اس کے قریب تھا۔ان کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ ان کے حلقہ ء احباب میں پانچ سال کے بچے سے لے کر پچانوے سال تک کے بوڑھے لوگ شامل تھے ۔میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ اس میں ان کی شخصیت کے علاوہ ان کی فنی خدمات کا ہاتھ بھی ہے ۔ امجد صابری ایسے ورسٹائل فنکار تھے جنہیں پانچ سال کا بچہ بھی بطور فنکار پسند کرتا تھا اور پچانوے سال کا بوڑھا بھی۔
شگفتہ مزاج کے انسان تھے ،ہر وقت ہنسنے بولنے والے ۔ قد آور فنکار نجی محفلوں میں دوست و احباب کی فرمائش پر پرفارم کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں ،اور امجد صابری سے کوئی دور کا جاننے والا بھی نعت کی فرمائش کر بیٹھتا تو اس کے سامنے ہاتھ باندھ کر پڑھنا شروع کر دیتے تھے ۔ انہوں نے زندگی میں کبھی کسی کی فرمائش کو رد نہیں کیا،کبھی کسی کا دل نہیں توڑا ،کبھی کسی کو خود سے چھوٹا یا حقیر نہیں سمجھا ،کبھی کسی کا حق نہیں مارا۔۔۔آپ سادگی و شرافت کی انتہا تو ملاحظہ کیجیے ،لیاقت آباد کا آبائی گھر صرف اس وجہ سے نہیں چھوڑا کہ وہ ابا کے ہاتھ کا بنا ہوا ہے اور آس پاس سب لوگوں سے پیار محبت کے رشتے ہیں ،اپنائیت ہے۔ امجدخود ہر کسی کے لیے اپنائیت محسوس کرتے تھے اس لیے انہیں لگتا تھا کہ شائد یہ پوری دنیا بھی ان کے ساتھ اپنائیت سے پیش آئے گی۔
اس کہانی کا آخری باب بڑا دردناک ہے ،ظالمانہ ہے اور سنگدلانہ ہے ۔میں امجد فرید صابری صاحب کی زندگی پڑھنے کے بعد اب تک سکتے میں ہوں ۔ امجد صابری کا فنی قد بلاشبہ بہت بلند و بالا تھا ،ان کی بنیاد میں صابری برادرز تھے اور وہ خود اس صدی کے وہ انسان ہیں جنہوں نے قوالی کو چوتھے مرحلے میں داخل کیا مگر وہ عام آدمی تھے ،کیسے ؟
اپنی فطرت سے ،اپنی سوچ سے اور اپنے نظریات سے وہ امجد فرید صابری نہیں تھے ،وہ برصغیر کے مایہ ناز قوال غلام فرید صابری کے بیٹے نہیں تھے،وہ آٹھ سال سے لے کر زندگی کی آخری سانس تک کامیابیاں اورشہرتیں سمیٹنے والے انسان نہیں تھے ،وہ عام آدمی تھے ۔ وہ آپ کی طرح تھے ،وہ میری طرح تھے، وہ کراچی کی ڈھائی کروڑ عوام کی طرح تھے ۔ وہ ایک سادہ آدمی کی زندگی جی رہے تھے جو روز صبح اپنے کام پر جاتا ہے ،وہ سمجھتے تھے کیا فرق پڑتا ہے کہ و ہ کام کے لیے کینیڈا ،فرانس اور آسٹریلیا جا رہے ہیں ،لوگ کام پہ جایا کرتے ہیں چاہے ان کا کام گھر کے سامنے ہو یا ملک سے باہر۔وہ اپنے ملازم کو اپنا ملازم سمجھنے کے لیے تیار نہیں تھے ،اسے بھی برابری کا درجہ دیتے تھے ،کھانے پینے اٹھنے بیٹھنے سونے جاگنے الغرض ہر معاملے میں معمولی عام آدمی کی زندگی کو ترجیح دیتے تھے۔ایک بار ان کی ماں اصغری بیگم نے کہہ دیا ۔
‘‘بیٹا خیال سے آیا جا یا کرو …مت بھولو کہ تم کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں رہتے ہو۔’’ جواب سنئے:
‘‘خیال خاص لوگوں کو کرنا پڑتا ہے ۔۔۔میں تو عام آدمی ہوں۔اور پیار محبت امن اور اپنائیت کی بات کرتا ہوں ۔میرا برا کس نے چاہنا ہے؟’’
وہ کسی فرقے سے متعلق نہیں تھے ۔وہ نہ سنی تھے ،نہ شیعہ تھے ،نہ دیو بندی تھے نہ اہلِ حدیث تھے ۔وہ بس مسلم ایمان والے مسلمان تھے۔وہ کسی پارٹی کے اعلیٰ عہدیدار نہیں تھے ،کسی لیڈر کا جھنڈا اٹھا کر بیانات نہیں دیتے تھے ۔وہ تو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام کا جھنڈا بلند کرتے تھے جس پر سب فرقوں کا اتفاق ہے اور جنہیں ساری پارٹیاں لیڈر مانتی ہیں۔ وہ تو اللہ کی بڑائی بیان کرتے تھے، اللہ کی تعریف کرتے تھے اور لوگوں کو رلا دیا کرتے تھے۔ وہ تو راستے پر چلنے والے انجان آدمی کو اس کے گھر چھوڑنے چل پڑتے تھے، گلی میں کھڑے ہو کر بچوں کے ساتھ کھیلنا شروع کر دیتے تھے۔ سلام میں پہل کرنے کو ترجیح دیتے تھے، نماز اور تلاوت ان کا اوڑھنا بچھونا تھی۔ چینلز پر بھی اللہ رسول کی باتیں کرتے تھے اور ان کا فن تو تھا ہی اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف ۔۔۔
میں ابھی تک شاکڈ ہوں ۔ سکتے میں ہوں کہ یہ کیسا قہر ہے ؟ یہ کیسا ظلم ہے ،کیسی بربریت ہے؟یہ کس طرح کی حیوانیت ہے کہ ایک ایسے انسان کو دن دھاڑے دو سڑک چھاپ غنڈے ،کرائے کے قاتل دو سیکنڈز میں شہید کر کے چلے جاتے ہیں اور آسمان پھٹتا ہے نہ ہی زمین ہلتی ہے ۔یہ بائیس جون 2016 ء کا اندوہناک واقعہ ہے ۔رمضان کا مہینہ تھا اور سولہواں روزہ تھا جب سات سال کے اس بچے کو قتل کر دیا گیا جس نے آذانِ عصر کی ‘‘اللہ اکبر’’ سننے کے بعد آخری سانس تک ایک روزہ نہ چھوڑا ۔ یہ اس جوان شخص کی شہادت تھی جسے اس کے کیریئر کے عروج میں بے دردی سے مار ڈالا گیا ۔ یہ اس آواز کو دبانے کی سازش تھی جو صرف اللہ اور رسول کے لیے اٹھتی تھی اور لوگوں کے دلوں کو نورِ ایمانی سے منور کر دیتی تھی ۔میں یہ کیسے مان جاؤں کہ امجد صابری نے خاص ہو کر ایک عام آدمی کی زندگی کو پسند کیا اور اسے عام آدمی کی طرح موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور پھر اگلے دن کا سورج اسی طرح طلوع ہو گیا؟ یہ ہم پر کیسا عذابِ الٰہی ہے کہ اللہ ہم سے ایسے بندوں کو چھین لیتا ہے اور پھر ہمارے اندر یہ احساس بھی نہیں ابھرنے دیتا کہ ہمارا کتنا بڑا نقصان ہو گیا؟ یہ کس بد دعا کا سایہ ہے ہمارے اوپر ،جس کی نحوست نے اس معاشرے میں ایسے درندے پیدا کر دیے ہیں جو امجد فرید صابری جیسے انسانوں پر بھی رحم نہیں کرتے ،جو ایسے فرشتوں کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں جن کے دل میں محبت کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔
واقعہ رونما ہونے کے بعد تمام ٹی وی چینلز پر کہرام مچ گیا ۔لائیو ٹرانسمشنز میں شو ہوسٹ کرنے والوں کی چیخیں نکل گئیں ۔اس کے بعد بیانات کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا جو تین چار دن تک چلتا رہا ۔ مذہب کے ٹھیکیداروں کی بکواس ،سیاسی راہ نماؤں کے مگر مچھ کے آنسو اور بڑھکیں ۔دو کرائے کے قاتلوں کو پکڑ کر لٹکا دیا گیا ۔امجد فرید صابری کی شہادت میں کس کو اپنا فائدہ نظر آ رہا تھا ؟ یہ سوال آج تک میڈیا میں بھی کہیں نہیں اٹھایا گیا۔واقعے کے بعد د و مہینوں تک مختلف چینلز پر امجد صابری کی سوگوار فیملی کو دکھایا جاتا رہا اور ایک سال تک انہیں کسی ‘‘انجان دشمن’’ سے بچانے کے لیے رینجرز کی سیکیوریٹی دی گئی ۔۔۔۔آج لیاقت آباد کی اس گلی میں کسی چینل کی گاڑی جاتی ہے نہ ہی پولیس یا رینجرز والے ادھر کا رخ کرتے ہیں۔
ایک اچھی اور حوصلہ افزا خبر البتہ یہ ضرور ہے کہ مجدد فرید صابری اپنے والد صاحب کے نقشے قدم پہ چل رہے ہیں ۔یہ ابھی ٹین ایجر ہیں مگر بہت عمدگی سے نعت پڑھتے ہیں ،آواز بھی اچھی ہے اور امجد صابری صاحب کے شوبز کے دوست ان کی حوصلہ افزائی بھی کر رہے ہیں ۔مجھے پوری امید ہے کہ مجدد صابری اس پودے کو کبھی نہیں سوکھنے دیں گے جسے ان کے دادا غلام فرید صابری نے لگایا تھا۔
امجد فرید صابری صاحب کے ذاتی کلام میں‘‘ علی کے ساتھ ہے زھرا کی شادی’’ ،‘‘نہ پوچھیے کہ کیا حسین ہے’’ ،‘‘کرم مانگتا ہوں عطا مانگتا ہوں’’،‘‘میں نذر کروں’’،‘‘جان جگر’’،‘‘اللہ اللہ’’،‘‘دھوم مچا دو’’،‘‘کعبہ کی رونق’’،‘‘کاش یہ دعا میری’’،‘‘علی میرا دل’’ ،‘‘پھر دکھا دے حرم’’،‘‘طلوع ِسحر ہے شامِ قلندر’’،اور ان کی آخری نعت‘‘ اے سبز گنبد والے منظور دعا کرنا’’ شامل ہیں۔
اس کے علاوہ ان کا آڈیو البم ‘‘بلغ العلی بکمالہ’’ بھی ان کے مشہور ترین البمز میں سے ایک ہے ۔حکومتِ پاکستان کی جانب سے انہیں ستارہء امتیاز سے نوازا گیا۔
وہ بچہ جس نے چار سال کی عمر میں تہجد کے وقت اٹھ کر اپنے باپ اور استاد سے راگ بھیرویں سیکھنا شروع کیا تھا ،چالیس سال کی مختصر عمر پا کر عین جوانی میں اپنے کیرئیر کے عروج پر اپنے چاہنے والوں کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے چلا گیا ۔میں نہیں جانتا کہ انہیں کس نے شہید کروایا ہے ۔بہت ساری کہانیاں گردش کرتی رہیں ،طالبان کو بھی قصور وار ٹھہرایا گیا اورفرقہ واریت کو بھی نامزد کیا گیا ،یہ بھی کہا گیا کہ کسی سیاسی پارٹی کے مفادات تھے ۔میرے پاس ایک خبر یہ بھی پہنچی کے انہوں نے لیاقت آباد میں ہی کوئی پراپرٹی خریدی تھی جس میں لینڈ مافیا کو دل چسپی تھی اور اس مافیا کی کمان کسی سیاسی پارٹی یا پھر کسی سیاسی لیڈر کے ہاتھ میں تھی ،جو بھی تھا ۔۔۔ہم بہرحال بحیثیت قوم امجد فرید صابری کے مجرم ہیں کیونکہ ہمارے بیچ یقینا وہ لوگ موجود ہیں جو اصل حقائق جانتے ہیں مگر انہوں نے کوئی قدم نہیں اٹھایا اور اس سے بڑی سزاوار اس وقت کی حکومت ہے جس نے دو کرائے کے قاتلوں کو لٹکا کر معاملہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا ۔۔۔صد حیف۔
امجد فرید صابری اب بہت سکون میں ہیں ۔ وہ جانے سے دو دن قبل دنیا کے سامنے ‘‘جب وقت ِنزع آئے دیدار عطا کرنا۔۔۔’’ کی درخواست آگے پہنچا چکے تھے ۔ عالم الغیب تو اللہ ہی کی ذات ہے مگر ہماری آنکھوں نے جو کچھ دیکھا اس کے بعد دل گواہی دیتا ہے کہ ان کی درخواست منظور ہو چکی ہو گی اور اب ان کی اصلی اور دائمی زندگی میں راحت ہی راحت ہو گی ۔اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے ۔۔۔آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد
ختم شد