انہیں ہم یاد کرتے ہیں

احمد فراز

احمد فراز

5/5

احمد فراز وہ رومانی، مقبول عام، سادہ لفظوں میں زندگی کا اظہار کرنے والا انسان ہے، جو اردو جاننے، پڑھنے اور بولنے والے دل و دماغ سے ایک مرتبہ تو ضرور گزرا ہو گا۔ ایک ایسی آواز ہیں کہ جو خاموش ہو بھی گئی تو ختم نہیں ہو سکتی، جس کو اردو پڑھنے اردو جاننے والے، محبت کرنے والے،اور اس محبت کے اظہار کے لیے ردھم کو ڈھونڈنے والے ، ہمیشہ سنیں گے اور سمجھیں گے۔اردو شاعری دہلی کے اردو بولنے والے خاندانوں کے گھر کی باندی رہی لیکن اردو کی مقبولیت اور پاکستان کی قومی زبان بننے کے ساتھ ،اردو شاعری ان لوگوں نے بھی کی جن کی پہلی زبان اردو نہ تھی،جن میں فیض احمد فیض اور علامہ اقبال کا نام نمایاں ہے۔ احمد فراز کی بھی پہلی زبان اردو کے بجائے پشتو تھی۔ انہیں شاعرانہ مزاج اور شاعری دونوں ورثے میں ملے تھے۔ والد صاحب فارسی میں شعر کہتے تھے، اور اہل کتاب میں سے تھے۔ احمد فراز کا بھی کہنا تھا کہ انہیں شعر اردو میں ہی کہنا پسند تھا، حالاں کہ مادری زبان پشتو تھی، اور والد فارسی کے گرویدہ۔ جب شعر کہنا شروع کیا تو اردو اچھی طرح جاننے اور لکھنے کے باوجو داردو بولنا آسان نہ تھا۔ نام ’سید احمد شاہ‘ تھا اور تخلص ’فراز‘ لکھتے تھے۔ بچپن ایک لحاظ سے غیر معمولی تھا کہ دادا کی قبر پر مزار تھا، اور وہاں خواہشوں کے دھاگے باندھنے، نا آسودہ دلوں کی،نا مکمل خواہشوں اور زیارتوںکے لیے آنے والوں کا تانتا بندھا ہوتا تھا۔ شاعری کا آغاز ایک بیت بازی کا مقا بلہ جیتنے کے لیے کیا تھا اور جیتنا اس سے تھا، جس کے سامنے ایک نویں کلاس کے ٹین ایجر کا دل ہارا ہوا تھا، ایک کلاس سینئر تھی اور خاندانوں کے رابطے کی وجہ سے گھر آنا جانا تھا۔اس نے ایک دن بیت بازی کا طریقہ سمجھایا اور مستقبل کے شاعر کو مقابلی کی دعوت دی، جو کہ بڑے شوق سے قبول کی گئی تھی لیکن جب بھی شعر یاد کر کے جاتے تو کم پڑ جاتے اور دل جس سے مقابلہ جیتنے کو بے چین تھا، وہ جیت جاتی۔ خیر مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا، اور پھر شعر خود بنانے لگے۔جب شعر کہنے با قا عدہ شروع کیے تو اپنی شاعری اپنی والدہ کو سونپی کہ والد صاحب کو دکھا دیں کہ اگر کوئی کمی بیشی ہو تو دور ہو جائے اور اصلاح کی جتنی بھی گنجائش ہو وہ کی جا سکے۔چند دن تو گھر میں خاموشی رہی اور ہزار وسوسوں نے آگھیرا لیکن چند دن بعد والد نے بلایا اور ہلکی پھلکی ڈانٹ پلائی کہ’ عشق و معشوقی کی شاعری کرتے ہو؟ شرم نہیں آتی۔“
1951ءکی بات ہے جب ایک مشاعرے میں شرکت کی اور وہاں زیڈ۔اے ۔ بی آئے ہوئے تھے ، جو کہ اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل کنٹرولر آف پاکستان براڈ کاسٹنگ سروسز تھے۔ کسی سینئر کے گھر ایک ادبی محفل تھی جسے مشاعرے کا نام دیا گیا تھا۔’احمد فراز‘ نے غزل پڑھی تو بخاری صاحب کی طرف سے دوسری غزل کی فرمائش کی گئی۔ غزل سننے کے بعد کہا’ فراز بیٹا جب بھی تمہیں کام کرنے کا خیال آیا تو ریڈیو پاکستان کے دروازے کھلے ہیں‘۔ ابھی شاید ارادہ تو نہ تھا کیوں کہ تعلیم ابھی جاری تھی ، لیکن گھر میں پڑے ایک گل دان نے راستے یوں تبدیل کیے کہ ایک گلدان ٹوٹا والد نے تھوڑا بہت جھاڑا اور حساس شاعر اور غیرت مند پٹھان نے سوچا اب نہیں رہنا یہاں۔ سو ریڈیو پاکستان کی آفر یاد تھی۔ وہاں رابطہ کیا اور فورا µ نوکری کے لیے بلاوے کا خط آ گیا۔سو فرسٹ ائیر بھی چھوڑ دیا اور گھر بھی ۔ یہ ریڈیو پاکستان کا وہ وقت تھا، جب ابھی ریڈیو پاکستان ٹینٹوں میں آباد تھا۔بلڈنگ کہیں جاکر بہت بعد میں بنی تھی۔
کسی جذباتی لمحے میں گھر اور ماں کو تو چھوڑا تھا لیکن رات ماں کو یاد کرتے گزرتی اور دن کام کرتے ۔ اسی روٹین سے تھک کر ایک دن آفس میں گئے اورکہا یا تو میرا استعفیٰ لے لیں یا پھر ٹرانسفر کر دیں۔ پشاور ٹرانسفر ہو گئی اور گھر کا سکھ اور ماں کی محبت پھر سے میسر آئی۔
پھر تعلیم کا سلسلہ بھی چل نکلا ۔ایڈورڈ کالج سے گریجویشن کرنے کے بعد پشاور یونیورسٹی سے ایم اے اردو کیا۔

احمد فراز کا کہنا تھا کہ شاید غالب کے بعد کوئی اور بڑا غزل گو شاعر پیدا نہیں ہو سکتا۔ ذاتی طور پر بھی انہیں نظم ، غزل سے زیادہ پسند تھی، لیکن احمد فراز نے اردو زبان کو ایسی لا زوال غزلیں دان کی ہیں کہ جو زبان زد عام ہوئی۔ شعر اس قدر سادہ ہیں کہ ایک مرتبہ سننے سے یاد رہ جاتے ہیں اور اس قدر گہرے کہ پھر کبھی بھولتے ہی نہیں۔
ہیں کوچہءجاناں سے پرے بھی کئی منظر
دل نے اس راہ سے ہٹ کر نہیں دیکھا
اگر یہ کہا جائے کہ احمد فراز رومانیت، خوابوں، سرابوں اور نظریوں کا شاعر تھا، حالات سے لڑنے والا باغی تھا تو بے جا نہ ہو گا۔

خواب مرتے نہیں،
خواب دل ہیں ، نہ آنکھیں ، نہ سانسیں
کہ جو،
ریزہ ریزہ ہوئے تو بکھر جائیں گے،
جسم کی موت سے یہ بھی مر جائیں گے،
خواب مرتے نہیں،
خواب تو روشنی ہیں،نوا ہیں ، ہوا ہیں،
جو کالے پہاڑوں سے رکتے نہیں،
ظلم کی دوذخوں سے بھی پھکتے نہیں،
روشنی اور نوا اور ہوا کے علم،
مقتلوں میں پہنچ کر بھی جھکتے نہیں،
خواب تو حرف ہیں،
خواب تو نور ہیں،
خواب سقراط ہیں،
خواب منصور ہیں،
خواب مرتے نہیں۔


یہ نظم نیرہ نور کی آواز میں گائی گئی اوریہ لا زوال الفاظ وقت کے گنبد میں ، اس خوبصورت آواز کی صورت میں زندہ رہیں گے۔ صرف یہی نہیں بلکہ احمد فراز ان خوش نصیب شعرا ءمیں سے ہیں جن کا کلام کافی خوب صورت آوازوں میں سجایا گیا اور مقبول زد عام ہوا۔یہ وہ دور تھا جب نور جہاں، فریدہ خانم،مہدی حسن ،غلام علی،جگجیت وغیرہ، اردو غزل کو کتابوں سے نکال کر انہیں سروں، سازوں اور آواز کے سوزوں سے سجا کر ، لوگوں کے دلوں میں انہیں نقش کر رہے تھے۔
ان کی ایک اورخوبصورت اور ہمیشگی کی نغمگی لیے ایک اداس کر جانے والی غزل جو کئی سالوں سے سنی جا رہی ہے ۔

اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

یہ بھی سچ ہے کہ اقبال اور فیض کے بعد جو مقبولیت احمد فراز کو نصیب ہوئی وہ کسی اور شاعر کے حصے میں نہیں آئی اور مقبول عام کا جو درجہ انہیں نصیب ہوا وہ بھی کسی اور کا مقدر نہیں ہوا۔ وہ عوام کی اس محبت اور خلوص کو سب سے بڑا تمغہ اور اعزاز سمجھتے اور مانتے بھی تھے۔ احمد فراز کا کہنا تھا کہ شاعری پتا نہیں اچھی چیز ہے یا پھر بری، لیکن مجھے جو بھی ملا وہ شاعری کی وجہ سے ملا۔ اگر کبھی کوئی دکھ اور تکلیف بھی آئی تو شاعری نے مجھے آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا اور مجھ سے ایسی تخلیقات ہوئیں جو میرے لوگوں کو پسند آئیں۔

داغ دامن کے ہوں ، دل کے ہوں کہ چہرے کے فراز
کچھ نشاں وقت کی رفتار سے نہیں جاتے


یہ بھی سچ ہے کہ اقبال اور فیض کے بعد جو مقبولیت احمد فراز کو نصیب ہوئی وہ کسی اور شاعر کے حصے میں نہیں آئی اور مقبول عام کا جو درجہ انہیں نصیب ہوا وہ بھی کسی اور کا مقدر نہیں ہوا۔ وہ عوام کی اس محبت اور خلوص کو سب سے بڑا تمغہ اور اعزاز سمجھتے اور مانتے بھی تھے۔ احمد فراز کا کہنا تھا کہ شاعری پتا نہیں اچھی چیز ہے یا پھر بری، لیکن مجھے جو بھی ملا وہ شاعری کی وجہ سے ملا۔ اگر کبھی کوئی دکھ اور تکلیف بھی آئی تو شاعری نے مجھے آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا اور مجھ سے ایسی تخلیقات ہوئیں جو میرے لوگوں کو پسند آئیں۔
داغ دامن کے ہوں ، دل کے ہوں کہ چہرے کے فراز
کچھ نشاں وقت کی رفتار سے نہیں جاتے
ایم ۔اے اردو کے بعد انہوں نے اسلامیہ کالج میں لیکچرر شپ اختیار کی۔ اندر کے شاعر کو وہ ماحول بھی اتنا راس نہ آیا بہ قول احمد فراز میں اپنا پیریڈ لیتا تھا اور پھر ریڈیو کے دفتر میں دوستوں کے ساتھ گپ شپ کرنے چلا جاتا تھا۔پھر کالج میں انتخابات کے دوران طلباءنے ایک شریف النفس انسان، ایک سینئر ٹیچر ، جو کہ کالج کے پرنسپل بھی تھے، انہیں فحش گالیاں دیں اور بے عزتی کی کہ ٹیچنگ سے دل اچاٹ ہو گیا اور اس شعبے کو خیر باد کہہ دیا کہ، ٹیچر کے پاس مال اور سرمایہ تو کوئی ہوتا نہیں صرف عزت ہی اصل کمائی ہوتی ہے ، اگر وہ بھی نہ رہے اور اس کا خیال بھی لوگ نہ رکھیں تو ایسی نوکری کا فائدہ؟ان دنوں ’نیشنل کونسل فار امیگریشن پشاور‘ کے لیے ڈائریکٹر کی آسامی خالی ہوئی تو وہاں درخواست دے دی۔ملازمت مل گئی اور کر بھی لی لیکن وہاں کوثر نیازی سے نہ بن پائی اور جب احمد فراز چھٹی پر اپنے بھائی کے پاس لندن میں تھے تو انہیں ملازمت سے برخواست کر دیا گیا، خیرملازمت بحال ہو گئی لیکن دل اچاٹ ہو گیا۔ ’کونسل برائے قومی یکجہتی نیشنل سنٹر ‘ کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے ۔ملازمت کے سلسلے میں اسلام آباد میں رہائش اختیار کی اور جب کچھ عرصے بعد ’اکادمی ادبیات ‘ کی بنیاد رکھی گئی تو اس ادارے کا پہلا’پراجیکٹ ڈائریکٹ اور ڈائریکٹر جنرل‘ مقرر کیا گیا۔لیکن مارشل لاءنے بعد حالات نے کچھ اور رخ اختیار کیا اور اس عہدے سے سبک دوش کرنے کے بعد ٹرانسفر کی چکی میں پیسنا شروع کر دیا گیا ۔
احمد فراز نے اپنی شاعری میں تیکنیک، بحراور دیگر ضروری امور کا خیال رکھا لیکن ایک شاعر اور ادیب لفظوں کا بازی گر نہیں ہوتا بلکہ اس کی کچھ سماجی ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیںاور وہ ایک بے حس ،بے خبر اور بے ضمیر شخص کی طرح گرد و پیش کے حالات سے بے نیاز ہو کر زندگی نہیں گزار سکتا۔ اسی چیز کی عکاسی ان کی سیاسی جدو جہد میں نظر آتی ہے ۔
”پیشہ ور قاتلو تم سپاہی نہیں۔“ اس نظم کو لوگوں نے کئی نام دیے تھے، لیکن احمد فراز نے اسے ’ پاک فوج کو سلام‘ ٹائٹل دیا۔انہی نظموں کو بغاوت کہہ کر انہیں قید تنہائی میں ڈال دیا گیا تھا اور ایک دن ریکارڈنگ کمپنی سے دوست کے ساتھ باہر نکال رہے تھے کہ پولیس نے چاروں طرف سے گھر لیا اور ایک سامنے کھڑے وردی میں فوجی نے پو چھا کہ ’ آپ احمد فراز ہیں‘ مثبت جواب ملنے پر کہا’ آپ زیر حراست ہیں‘وارنٹ دکھا کر گاڑی میں بٹھایا اور آنکھوں پر پٹی باندھی۔پھر راولپنڈی میں ایک ایسی جگہ لے جایا گیا جہاں فوجی مجرموں اور جا سوسوں کو رکھا جاتا تھا۔رات اس تاریک ، کریہہ کال کوٹھری میں اونگھتے گزری ، صبح دروازہ کھلا تو دل میں خیال آیا شاید ایذا رسانی کے لیے کہیں لیے جا رہے ہیں لیکن، کئی سیڑھیاں پھلانگتے اوپر چھت پر لے گئے ۔آنکھوں سے پٹی ہٹی تو سامنے درختوں میں بولتی فاختہ دیکھی اور اس پر کال کوٹھری میں یہ تین شعر لکھے تھے ۔

ایسا سناٹا کہ جیسے ہو سکوت صحرا
اتنی تاریکی کہ آنکھوں نے دہائی دی ہے
درزنداں سے پرے کون سے منظر ہوں گے
مجھ کو دیوار دکھائی دی ہے
دور ایک فاختہ بولی ہے سر شاخ شجر
پہلی آواز محبت کی سنائی دی ہے

پھر وہاں سے ایک نئی جگہ قید میں ڈالا گیا ، جو کسی ویران دور مقام پر تھی لیکن سلاخوں کے پیچھے ہونے کے باوجود کھلی اور ہوا دار تھی۔یہ مانسہرہ کیمپ تھا،اٹک میں، جہاں قید تنہائی کاٹنی تھی لیکن کیمپ کمانڈنٹ جسے ااطلاع تھی کہ بھارت کا جاسوس بھیجا جا رہا ہے ، وہ احمد فراز کو دیکھ کر حیران ہوا ۔ ادب دوست تھا اس لیے ، قید میں پڑے شاعر کے ساتھ کبھی کبھار ادبی گفتگو بھی کرنے آجاتا تھا۔جس دوست کے سامنے احمد فراز کو قید کیا گیا تھا، اس نے پھر حکومت وقت کے خلاف مقدمہ دائر کیا ، مقدمے کی سماعت ایک بند کمرے میں ہوئی ، اور جج کا کہنا تھا فیصلے تک یہ قید کاٹنی پڑے گی۔ پھر اپنے نظریا ت اور خیالات کے اظہار اور جبرکے خلاف آواز اٹھانے کی خاطر ،جن سلاخوں کے پیچھے تھے، وہ سلاخیں ، انصاف کی امید کو ختم نہ کر سکیں، اور اسی آس پر ہاکر سے کچھ دن بعد اخبار پکڑا تو اس میں اپنی رہائی کی خبر پڑھی اور وہ کمانڈنٹ جو کسی وجہ سے عدالت کے فیصلے کو التواءمیں ڈالے بیٹھا تھا، توہین عدالت کی دھمکی ملنے پر ہوش میں آیا۔ احمد فراز سے پھر ایک اقرار نامہ پر دستخط لیے گئے کہ جب بھی انہیں کسی کارروائی کے لیے بلایا جائے گا وہ دستیاب ہوں گے۔ عدالت کا حکم ، حکومت کو پسند تو نہیں تھا آیا لیکن حکم ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔
پھر کچھ عرصہ بعد ایک نظم ’محاصرہ‘ پڑھنے پر صوبہ بدر کر دیا گیا ۔اس نظم کے الفاظ کچھ یوں ہیں۔

میرے غنیم نے مجھ کو پیام بھیجا ہے ،
کہ حلقہ زن ہیں میرے گرد لشکری اس کے
فصیل شہر کے ہر برج ، ہر مینارے پر،
کماں بدست ایستادہ ہیں عسکری اس کے ،
وہ برق لہر بجھا دی گئی ہے جس کی تپش،
وجود خاک میں آتش فشاں جگاتی تھی،
بچھا دیا گیا بارود اس کے پانی میں،
وہ جوئے آب جو میری گلی کو آتی تھی،
سبھی دریدہ دہن اب بدن دریدہ ہوئے ،
سپرد د ارو رسن سارے سر کشیدہ ہوئے ،
تمام صوفی و سالک، سبھی شیوخ و امام
امید لطف پہ ایوان کجلاہ میں ہیں،
معززین عدالت حلف اٹھانے کو،
مثال سائل مبرم نشستہ راہ میں ہیں،
تم اہل حرف کے پندار کے ثناءگر ہو ،
وہ آسمان ہنر کے نجوم کے سامنے ہیں،
بس اس قدر تھا کہ دربار سے بلاوا تھا،
گداگران سخن کے ہجوم سامنے ہیں،
قلندران وفا کی اساس تو دیکھو،
تمہارے ساتھ ہے کون ؟آس پاس تو دیکھو،
تو شرط یہ ہے ،جو جاں کی امان چاہتے ہو،
تو اپنے لوح و قلم قتل گاہ میں رکھ دو،
نشانہ کمان داروں کا وگرنہ اب کہ
بس ایک تم ہو، تو غیرت کو راہ میں رکھ دو،
یہ شرط نامہ جو دیکھا تو ایلچی سے کہا،
اسے خبر نہیں تاریخ کیا سکھاتی ہے ،
کسی خورشید کو شہید کرے، کہ رات جب
تو صبح اک نیا سورج تراش لاتی ہے،
تو یہ جواب ہے میرا مرے عدو کے لیے،
کہ مجھ کو حرص کرم ہے نہ خوف خمیازہ،
اسے ہے سطوت شمشیر پہ گھمنڈ بہت،
اسے ہے شکوہ قلم کا نہیں ہے اندازہ،
مرا قلم نہیں کردار اس محافظ کا،
جو اپنے شہر کو محصور کر کے ناز کرے ،
مرا قلم نہیں کاسہ کسی سبک سر کا،
جو غاصبوں کو قصیدوں سے سر فراز کرے ،
مرا قلم نہیں اوزار اس نقب زن کا،
جو اپنے گھر کی ہی چھت میںشگاف ڈالتا ہے،
مرا قلم نہیں اس درزنیم شب کا رفیق،
جو بے چراغ گھروں پہ کمند اچھالتا ہے،
مرا قلم نہیں تسبیح اس مبلغ کی
جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے،
مرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کی،
جو اپنے چہرے پہ دوہرا نقاب رکھتا ہے،
مرا قلم توامانت ہے میرے لوگوں کی
مرا قلم تو امانت مرے ضمیر کی ہے۔

اس نظم کو ایک مشاعرے میں پڑھنے کے بعد انہیں صوبہ بدر کر دیا گیا ۔ پھر احمد فراز نے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کی کہ حکومت وقت کا جبر انہیں منظور نہ تھا۔وہاں فیض صاحب کا ساتھ نصیب ہوا جو اسی جبری حکومت کے عتابوں کا نشانہ بنے اور ملک بدر ہوئے۔ایک سیاسی شعور رکھنے والے شاعر کے طور پر، جس نے جبر کی حکومت کے خلاف اپنی مزاحمت جاری رکھی۔ لندن میں ایک سال رہنے کے بوجود سیاسی پناہ کی نہ خواہش کی اور نہ ہی کوشش۔اس دوران دنیا بھر سے مشاعروں میں شرکت کی دعوتیں ملنا شروع ہو گئیں اور امریکہ برطانیہ ،مشرق وسطہ اور افریقہ سمیت کئی ممالک میں مشاعروں میں شرکت کی۔’سب آوازیں میری ہیں‘ نام سے شاعری کی کتاب سویڈن سے شائع ہوئی۔ اسی طرح مخلف زبانوں میں کتابوں کے ترجمے شائع کیے گئے،برطانیہ میں قیام کے دوران ’بے آواز گلی کوچوں میں‘ منظر عام پر آئی،اسی طرح
 کتاب ’نابینہ شہر آئینہ‘ منٹریال سے شائع ہوا۔وطن سے دوری کے تجربے نے کئی نئے دریچے کھولے اور کئی نئے راستوں کا تعین کیا۔
ذولفقار علی بھٹو کو سیاسی اور جمہوری آئیڈیل سمجھنے والے احمد فراز ، پیپلز پارٹی کی حکومت کی بد عنوانی اور کرپشن کو دیکھ کر انہیں ،نوکریاں اور پلاٹ دلوانے والے ایجنٹوں کا گروہ قرار دیتے تھے۔ پرویز مشرف کے دور میں مارشل لاءکے خلاف یہ احتجا ج کیا کہ حکومت کی طرف سے نوازا گیا’سول ایوارڈ ہلال امتیاز‘ واپس کر دیا ۔اس ایوارڈ کو واپس کرنے کے لیے جو خط لکھا گیا ہے وہ ایک شاعر کی جہوری سوچ اور حساس فکر کا گواہ ہے۔
1989ءتا1990ءچیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان رہے ،1991ئ، میں کینیڈا میں بین الاقوامی ایوارڈ برائے زبان و ادب ٹورنٹو،1992میں جے۔این ٹا ٹا ایوارڈ برائے امن اور انسانی حقوق ملا،1991ءتا1993ءچیف ایگزیکٹو لوک ورثہ رہے،1994ءتا2005ءمینیجنگ ڈائریکٹر نیشنل بک فاو ¿نڈیشن رہے۔1994میں کمال فن ایوارڈ دیا گیا۔علی گڑھ بھارت اورپشاور یونیورسٹی پاکستان میں ، احمد فراز کو نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔2000میں ’ہلال امتیاز ‘ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
ان کے مشہور شعری مجموعوں میں’تنہا تنہا، درد آشوب،جاناں جاناں، شب خون،میرے خواب ریزہ ریزہ،خواب گل پریشان ہے، شامل ہیں۔ ’سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے‘ جیسے خوبصورت الفاظ لکھنے والا حساس شاعر ، زندگی سے رشتہ توڑ کر رخصت ہوا لیکن اپنے الفاظ، خوبصورت کلام اور لا زوال شاعری کی وجہ سے ہمیشہ زندہ رہے گا۔ احمد فراز کے کلام سے چند خوبصورت اشعار۔


تتلی کے تعاقب میں کوئی پھول سا بچہ
ایسا ہی کوئی خواب ہمارا بھی کبھی تھا

جہاں کے شور سے گھبرا گئے کیا؟
مسافر گھر کو آ گئے کیا؟

بندگی ہم نے چھوڑ دی ہے فراز
کیا کریں جب لوگ خدا ہو جائیں
بجھا دیا ہے تجھے بھی فراز دنیا نے
کہاں گیا ترا ہر وقت مسکرانا وہ

تیرے بغیر بھی تو غنیمت ہے زندگی
خود کو گنوا کر کون تیری جستجو کرے

جس آگ سے جی آج جل اٹھا ہے اچانک
پہلے بھی میرے سینے میں بیدار ہوئی تھی
جس کرب کی شدت سے میری روح ہے بے کل
پہلے بھی میرے سینے کا آزار ہوئی تھی
جس سوچ سے میں آج لہو تھوک رہا ہوں
پہلے بھی میرے حلق میں یہ تلوار ہوئی تھی

ختم شد

error: Content is protected !!