کباڑ — صوفیہ کاشف
سعدیہ نے صفائی والا کپڑا اٹھایا اور مسہری کو دھیرے سے جھاڑنے لگی۔ رات پھر اس کے خواب میں ایک چہرا اترا تھا۔ ایک ایسا
سعدیہ نے صفائی والا کپڑا اٹھایا اور مسہری کو دھیرے سے جھاڑنے لگی۔ رات پھر اس کے خواب میں ایک چہرا اترا تھا۔ ایک ایسا
تقریباً تین ماہ گزر چکے تھے لیکن ابھی تک لاشعوری طور پر میری نگاہیں دائیں جانب ہل ہل کر قرآن پڑھتے بچوں میں سے قطار
مجھے آج تک ایک بات کی سمجھ نہیں آئی کہ جب تک انسان کو اس کا پیار نہیں ملتا تو وہ یہ کیوں کہتا ہے
”بس یہیں روک دیں۔” وہ ڈرائیور کے پیچھے سے بولی تھی۔ پرس سنبھالتی وہ اپنے اسٹاپ پر اتر گئی۔ ایک لمحے کے لیے نظر سڑک
بارش کب ہو گی؟ ” عمیر نے زبیر کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔ “اگر میں ہوا کی رتھ پہ سوار ہو سکتا تو اس پہ
دیوار پر جھولتی ، بہار دکھاتی پھولوں کی بیل دل موہ رہی تھی ۔ اس سے پرے کھڑکی کی آ ہنی جالی کے نقش و
جون کی گرمی۔۔۔ دوزخ کی گرمی۔۔۔لاہور شہر اور اُنتالیس نمبر بس۔یہ بس ائیر پورٹ سے شیرا کوٹ تک جاتی تھی، نہ جانے کتنی خاک، کتنے
ڈگریاں تو اخراجات کی رسیدیں ہوتی ہیں۔ مگر کبھی کبھی زندگی او ر حا لات بھی ایک خاص ڈگری پر چل پڑتے ہیں، نا جانے
پہلی محبت آخری بازی پیش لفظ سخن میں دلکشی کچھ ہے تو عجب کیا اس میں؟ خون سے ہر لفظ کو سینچیں تو کمال آتا
دِن بھر کی تھکن اور مشقت نے اس کے پورے وجود کو ڈھانپا ہوا تھا۔ اسے ہلکا ہلکا بخار بھی تھا، اس کے باوجود بھی