رانی سے گرانی تک — عائشہ تنویر
سونا کسے پسند نہیں ہوتا، خواتین سونے پر جان دیتی ہیں تو بعض حضرات اس کے لیے جان لے بھی لیتے ہیں۔ سونے کے بھاؤ
سونا کسے پسند نہیں ہوتا، خواتین سونے پر جان دیتی ہیں تو بعض حضرات اس کے لیے جان لے بھی لیتے ہیں۔ سونے کے بھاؤ
’’اُف! تو بہ ہے۔ یہ سالن ہے یا زہر؟ بھابی، تمہیں اتنا عرصہ ہو گیا ہمارے گھر آئے، مگر مجال ہے جو اس گھر کا
وہ کافی دیر سے آنکھیں بند کیے بانسری بجا رہاتھا جس کی مدھر تان ہولے ہولے میرے دل پر دستک دینے لگی تھی۔ کچھ ہی
پولیس والوں کی بھی عجیب قسمت ہوتی ہے۔ ہر شخص امن و امان اور سلامتی کی دعا مانگتا ہے، مگر پولیس کے محکمے سے تعلق
دھیمی رفتار سے چلتی ٹھنڈی ہوا کے دوش پر پیپل کی لچک دار شاخیں سُرور کی سی کیفیت میں جھوم رہیں تھیں جس کی وجہ
رات کے دو بج رہے تھے ۔اس کی آنکھ کھلی ، کمرے میں گھپ اندھیرا، اور خاموشی کا دور دورہ تھا۔ اس نے پانی کا
رات کے پچھلے پہر وہ اوپری منزل کی جانب بڑھتا ہو ا ہر چیز کو آگے پیچھے اوپر نیچے سے یوں ٹٹول رہا تھا جیسے
سخت سردیوں کی جھڑی پورے زور و شور سے جاری تھی۔ سرد ہوائیں ہڈیوں میں اترتی محسوس ہورہی تھیں۔ بجلی کی چمک اور بادلوں کی
سرمد آفس سے باہر نکلا تو لو کے گرم تھپیڑوں نے اس کا استقبال کیا۔ اگرچہ شام ڈھل رہی تھی لیکن جون کا مہینہ تھا
’’ میرے پا س تمہارے لیے ایک سرپرائز ہے۔ ‘‘ مریم نے کمرے میں آکر ہاتھ میں پکڑا ہوا لفافہ لہراتے ہوئے کہا ۔ ’’کیسا