اِک فیصلہ — حنادیہ احمد
’میں ناہید سے اکیلے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ ارسلان کی بات سن کر سارے گھر والوں کو سانپ سونگھ گیا۔ ’’کیا تمہیں لگتا ہے
’میں ناہید سے اکیلے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ ارسلان کی بات سن کر سارے گھر والوں کو سانپ سونگھ گیا۔ ’’کیا تمہیں لگتا ہے
رات کی سیاہی صبح کے اجالوں سے جدا ہورہی تھی۔ روشن بیگم نے نماز پڑھنے کے بعد مٹی کے کٹورے میں پانی بھر کر رکھا
محبت کسی تتلی کے مانند اس کے دل سے اڑ گئی تھی یا شایدکسی غبارے سے ہوا کی طرح نکل گئی تھی۔ وہ شخص جو
ہر انسان اس زندگی میں اپنے حصے کی خوشیاں اور غم لے کر آتا ہے۔ وہ چاہے کوئی کتنا ہی خوش نصیب کیوں نہ ہو،
روڈ پر اِکا دُکا گاڑیاں نظر آرہی تھیں۔ سورج نے مکینوں کو گھروں سے نکلنے سے باز رکھا ہوا تھا۔ ’’اُف! اللہ کی پناہ یہ
آئیے! مجھ سے ملیے ، میرا اور حضرتِ انسان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ شاید میں تب ہی معرضِ وجود میں آگیا تھا جب
"میں کہتی ہوں دو اسے طلاق۔۔۔۔!”فاخرہ بیگم کی زناٹے دار آواز ڈرائنگ روم میں گونجی تو یک دم ہر طرف سناٹا چھا گیا۔ "لیکن امی۔۔۔۔؟”
میں’’ بلیو ٹوتھ ہینڈز فری‘‘ کانوںمیں ٹھونسے برتن دھونے میں مصروف تھی۔میرے کانوں میں ایک ’’ فاسٹ ٹریک ‘‘دھما دھم بج رہا تھا۔اس کے ساتھ
گرمیاں اپنے عروج پر تھیں۔ چرند پرند اس گرم دوپہر سے چھپ کر اپنی پناہ گاہوں میں آرام فرما تھے۔ اس تپتی دوپہر نے آدم
وہ آج بھی ویسا ہی کھانا بناتیں ہیں جیسے دس سال پہلے بنایا کرتیں تھیں، یا اس سے بھی پہلے بیس سال پہلے…… اس سے