عکس — قسط نمبر ۱

سات سال تک نتھو لوہار اور ہاجرہ بی بی یہ خواب پالتے رہے ایک ایک ٹکا بچا کر خیر دین کوتعلیم دلوانے کی کوشش کرتے رہے پھر ساتویں سال دوسرے بچے اور اس کے بعد ہر سال ایک بچے کی پیدائش نے ہاجرہ اور نتھو کے ذہن سے اسٹیٹس تبدیل کرنے کے بھوت کو نکال کر بھوک کے جن کو ان کے پیٹ میں قید کر دیا تھا لیکن خیر دین تب تک بگڑ چکا تھا… ماں باپ کے دھکے، گالیاں، گھونسے کھانے کے باوجود وہ بستہ چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھا لیکن دس دس میل دور پیدل اسکول جانے کے لیے تیار تھا۔
ملازمت کی تلاش اس نے دفتر میں شروع کی تھی اور یقیناً اسے مل جاتی لیکن ڈپٹی کمشنر کے گھر میں مالی کی نوکری کے لیے اس نے دفتر میں کلرکی چھوڑ دی تھی۔ یہ اس کی ماں کا خواب تھا اور وہ جیسے اپنی ماں کے خواب کی تعبیر کے لیے کچھ بھی کر سکتا تھا۔ اگر انگریزی زبان اس کے پاؤں کی زنجیر نہ بنتی تو وہ مالی کے بجائے اس گھر کا صاحب بننے کی کوشش بھی کرتا لیکن انگریز نے برصغیر کے عوام کو پاور اور اتھارٹی سے دور رکھنے کے لیے انگریزی زبان کی باڑ رعایا اور حاکم کے درمیان لگائی تھی۔ کسی زمین پر نہیں لگائی تھی، ذہن میں لگا دی تھی یہ جیسے پول والٹ کا پول تھا بلندی تک پہنچنے کا واحد ذریعہ۔




اور خیر دین کے ساتھ وہی ہوا تھا جو ہو سکتا تھا… ڈپٹی کمشنر کے گھر ہیڈ مالی کے ساتھ کام کا آغاز کرنے میں اس کی دس جماعتوں سے زیادہ اس کی گاؤں میں کھیتی باڑی کا تجربہ کام آیا تھا۔ وہ اس ضلع کا پہلا اور واحد فرسٹ ڈویژن میں میٹرک پاس مالی تھا اور چند مہینوں میں اس نے اپنی محنت اور ذہانت سے صاحب کا اعتماد جیت لیا تھا۔ مالی کا کام کرتے کرتے وہ صاحب کے کچن میں پارٹ ٹائم خانساماں کے فرائض بھی انجام دینے لگا… شروع میں اس نے بیرا گیری کی اور خانساماں کے معاون کے طور پر کام کرتا رہا لیکن پھر ایک وقت آیا کہ جس دن خانساماں چھٹی پر ہوتا اور خیر دین کھانا بنا کر ٹیبل پر سجاتا… کھانے کی میز کی شکل ہی کچھ اور ہوتی، کھانے کے ذائقے کی تو خیر بات ہی الگ تھی… صاحب نے اس کو پھر آؤٹ دا وے پرموشن دینے میں دیر نہیں کی تھی۔
خیر دین گھر کے باہر سے گھر کے اندر آ گیا تھا… وہ گاؤں میں فخریہ سب کو بتاتا تھا کہ وہ سارا دن ڈپٹی کمشنر ہاؤس میں گزارتا تھا… اتنا وقت جتنا صاحب بھی نہیں گزارتا… چند اور مہینوں میں خیر دین نے جیسے ڈپٹی کمشنر ہاؤس کا حلیہ بدل کر رکھ دیا۔ وہ صاحب اور بیگم صاحبہ کارائٹ ہینڈ مین تھا جس پر اب وہ اندھا اعتماد کرتے تھے… خیر دین اب خانساماں نہیں بٹلر تھا… وہ انگریزی زبان جو وہ تعلیم حاصل کرنے کے دوران کہیں سے نہیں سیکھ سکا تھا وہ اس نے ایک انگریز ڈپٹی کمشنر اور اس کی میم صاحب سے سیکھی تھی اور دو سال کے دوران وہ انگریزی اس لہجے میں بولنے لگا تھا جس نے صرف لندن کے west end میں رہنے والے بولتے۔ وہ کوئک لرنر تھا اور اپنی اس کوالٹی کی وجہ سے اپنے صاحب کا چہیتا تھا کیونکہ یہ خصوصت ہندوستانیوں میں بہت کم پائی جاتی تھی۔
گاؤں میں اب خیر دین کے گھر کے باہر اس کی نیم پلیٹ تھی جس پر خیر دین کے نام کے نیچے اس کی designation اور اس کی مختصر سی designation کے نیچے اس کے صاحب کا نام اور صاحب کی designationکی تفصیلات مع صاحب کے سرکاری گھر اور سرکاری دفتر کے موجود تھیں اور اس نیم پلیٹ نے خیر دین کے خاندان کو کمی کمین نہیں رہنے دیا تھا۔ وہ اب انگریز کا ملازم تھا۔ ” اسے گاؤں کے ہر اونچی ذات کے چوہدری، برہمن ، بنیے، پٹواری کے سامنے جھکنے کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی۔
وہ اس گاؤں کا پہلا اور خاص طور پر اپنی براداری کا پہلا رول ماڈل تھا۔ بدقسمتی سے اور روایتی طور پر اس کے اپنے بہن بھائیوں میں سے کوئی اور ایک بھی اس رول ماڈل سے انسپائر ہو کر اس کے نقش قدم پر چلنے کو تیار نہیں ہوا تھا۔ ان کے بڑہانکنے کو بڑے بھائی کا اسٹیٹس کافی تھا۔ اس کے چھ کے چھ بھائی پہلی، دوسری جماعت سے ہی اسکول چھوڑ آئے تھے اور بہنوں کو تو خیر اس زمانے میں تعلیم دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ خیر دین کے بھائیوں کے لیے یہ بہت کافی تھا کہ بڑا بھائی کچھ بن گیاتھا اور وہ اس کے فخر کو اپنے سینے پر میڈل کی طرح لگا کر پھرتے رہتے تھے۔ خیر دین اپنی تنخواہ کا بڑا حصہ گھر ہی بھیجتا تھا اور اس آمدنی نے اس کے گھر کی حالت تو بہتر کرنا شروع کر دی لیکن خود اس کے خاندان میں سے بہت سوں نے کمانا چھوڑ دیا۔ خیر دین کو بہت جلد اندازہ ہو گیا تھا کہ ماں باپ کی بھٹیوں پر نہ بیٹھنے کے باوجود بھی اسے اپنی زندگی کو محنت کی بھٹی میں جھونکنا ہی تھا۔
سترہ سال کی عمر میں صاحب روز گار ہوتے ہی اس کی شادی ہو گئی تھی۔ خیر دین کو اسی مالی نے اپنا داماد بنا لیا تھا جس کے ساتھ خیر دین نے کمشنر کے گھر میں نوکری شروع کی تھی۔ اس کا سسرالی گاؤں اس کے شہر سے قریب تھا اور طور طریقوں کے اعتبار سے اس کے اپنے گاؤں سے زیادہ بہتر حالت میں تھا۔ اس بیوی اختری بی بی بھی کئی حوالوں سے اس کے لیے بے حد خوش قسمتی اور ترقی کا باعث بنی تھی۔ شہر میں آتے جاتے رہنے کی وجہ سے پڑھا لکھا نہ ہونے کے باوجود اختری کو اوڑھنے پہننے کا سلیقہ تھا اور وہ اور خیر دین آگے بڑھنے کے لیے ایک جیسا passionرکھتے تھے۔ ان کی صرف ایک ہی بیٹی ہوئی تھی حلیمہ…. اور خیر دین نے اپنے خاندان کے دباؤکے باوجود مزید اولاد نہ ہونے پر دوسری شادی نہیں کی تھی۔ اس نے حلیمہ کو دسویں تک تعلیم دی… خیر دین کی طرح وہ بھی اپنی برادری میں دس پاس کرنے والی پہلی لڑکی تھی اور پھر خیر دین نے اس کی شادی اپنے خاندان سے آنے والے تمام رشتوں کو چھوڑ کر ایک سرکاری دفتر کے اردلی سے کی تھی۔ چھ ماہ میں وہ سرکاری اردلی طاعون کی وبا کا شکار ہو کر دنیا سے رخصت ہو گیا اور تب خیر دین کے ہی ایک اور اچھے صاحب نے اپنی کوشش سے حلیمہ کی دوسری شادی اپنے ڈرائیور سے کروائی تھی۔ خیر دین کو اپنی طرح اپنی بیٹی کی قسمت پر بھی رشک آتا تھا۔ وہ ایک ڈپٹی کمشنر کے ذاتی ڈرائیور کی بیوی تھی اور اس کا شوہر شادی کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد اسے بھی اپنے سرکاری کوارٹر میں لے آیا تھا۔




چڑیا کی پیدائش ایک ڈپٹی کمشنر ہاؤس کے کوارٹر میں ہوئی تھی جہاں اس کا باپ ڈرائیور اور اس کی ماںڈپٹی کمشنر کے بچوں کی آیا تھی۔ شادی کے چار سالوں میں چڑیا کے بعد حلیمہ کے ہاں وقفے وقفے سے دو مرتبہ اولادوں کی ولادت ہوئی اور دونوں میں سے کوئی بھی زندہ نہ بچ سکا۔ شادی کے چوتھے سال اس کا شوہر نہر میں نہاتے ہوئے ڈوب گیا… حلیمہ کا گھردوسری بار اجڑ گیا تھا۔ دو بیٹوں کی موت نے جو زخم لگاتے تھے شوہر کی موت نے انہیں انمٹ کر دیا تھا لیکن بہرحال حلیمہ کا شوہر کوئی بہت آئیڈیل شوہر نہیں تھا اس کے رزق کا وسیلہ اور سائبان اس کی وفات کے فوراً بعد اس ڈپٹی کمشنر کی بیرون ملک ڈیپوٹیشن آ گئی تھی۔ حلیمہ باپ کے کوارٹر میں نہیں رہ سکتی تھی۔ شاید صاحب اور ان کی بیوی اسے رہنے کی اجازت دے ہی دیتی لیکن اب وہ سرکاری رہائش گاہ کسی اور کے زیر استعمال آ گئی تھی۔ حلیمہ چڑیا کو لے کر مجبوراً گاؤں چلی گئی۔ چڑیا اب خیر دین اور حلیمہ کی زندگی کا محور تھی اور خیر دین کے لیے اس سے الگ رہنا بے حد مشکل تھا۔ نیا صاحب اور اس کی بیوی نوکروں سے بہت فاصلہ رکھتے تھے اور خیر دین کسی بھی طرح اپنے سرکاری کوارٹر میں حلیمہ اور چڑیا کو لانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔
تبھی خیر دین اور حلیمہ کی قسمت کے ستارے ایک بار پھر گردش سے باہر آئے۔ خیر دین نے کسی زمانے میں ایک ڈپٹی کمشنر کے ساتھ کام کیا تھا جو بعد میں دوسرے صوبے میں چلا گیا تھا لیکن اسی دوران وہ دوبارہ پوسٹ ہو کر اسی ڈویژن میں آ گیا اور اس نے وہاں پوسٹ ہوتے ہی خیر دین کی اپنی سرکاری رہائش میں ٹرانسفر کروا لی تھی نہ صرف یہ بلکہ ان میاں بیوی نے حلیمہ کو بھی ایک بار پھر بچوں کی آیا کے طور پر رکھ لیا تھا۔
وہ تین سال چڑیا کی زندگی کے سب سے اہم سال ثابت ہوئے تھے۔ چڑیا نے اپنی ابتدائی تعلیم ماں اور نانا سے حاصل کی تھی۔ وہ خیر دین کی طرح بے حد ذہین اور کوئک لرنر تھی۔ اپنی عمر کے دوسرے بچوں کے مقابلے میں اس کا کونسنٹریشن اسپین بہت زیادہ تھا۔ وہ ایک کام کو شروع سے آخر تک ایک جیسے انہماک اور لگن سے کرتی تھی۔
گاؤں میں حلیمہ اسے تختی لکھوایا کرتی تھی اور تختی پر الف سے یے تک لکھے کسی حرف میں فرق نہیں ہوتا تھا۔ کہیں لکھنے والے کی اکتاہٹ، تھکاوٹ یا عدم دلچسپی کا اظہار نہیں ہوتا تھا۔ اس کی ہاتھ کی لکھائی بعد میں خیر دین کی لکھائی کی طرح ہوتی گئی تھی۔ الف ب خیر دین کا چیلنج نہیں تھا۔ خیر دین کا چیلنج abcتھا اور چڑیا کے لیے وہ دونوں تفریح تھے۔ وہ ماں سے جوڑ توڑ سیکھتی اور نانا کے آنے پر ان سے سپیلنگ… اس کا ذہن جیسے ایک اسفنج تھا جو سب کچھ چوس رہا تھا اور اپنے اندر اسٹور کرتا جا رہا تھا۔ ساری زندگی چڑیا کا ذہن اسفنج کی طرح سے ہی کام کرتا رہا تھا۔ صرف علم نہیں تھا جو وہ چوس کر اپنے اندر رکھتی تھی… اپنے خیالات، مشاہدات، تکلیف، خوشی… اور بہت کچھ وہ اپنے اندر سمیٹے رکھنے کی عادی تھی۔
وہ ساڑھے تین سال کی عمر میں حلیمہ کے ساتھ گاؤں کے اسکول گئی تھی اور وہاں جا کر حلیمہ کو پتا چلا کہ گاؤں کا وہ پرائمری اسکول چڑیا کے ایک ہاتھ کی مار تھا۔ وہاں کوئی بچہ نہ علم میں چڑیا کے سامنے ٹھہر سکتا تھا نہ اپنی تمیز میں۔
وہ اسکول میں آنے والی واحد بچی تھی جو پورے یونیفارم میں آتی تھی اور وہ بھی صاف ستھرے… اور وہ تقریباً ایسا ہی صاف ستھرا یونیفارم لے کر جاتی۔ اگر کئی بار اسے اسکول کے صحن میں درخت کے کچے کھلے میدان میں زمین پر نہ پڑھنا پڑتا۔ چھٹی کے وقت تک بھی اس کی چھوٹی سی چٹیا اور سر پر لگی ہیئر پنز یوں ہوتے جیسے اس نے ابھی کنگھی کر کے بال بنائے ہوں۔ اس کی قمیص کی فرنٹ پاکٹ میں ایک رومال ہوتا تھا جس سے چڑیا وقتاً فوقتاً اپنا پسینہ صاف کرتی رہتی یا فلو ہو جانے پر چھینکنے پر ناک سے بہنے والا پانی… وہ واحد چیز تھی جو وہ دانستاً گندہ کرتی ہو گی۔ شروع شروع میں اسکول میں اس کا وہ رومال استانیوں کے لیے مذاق اور تفریح کا باعث بنا تھا ۔ وہ اسکول جہاں سب کچھ ہاتھوں، آستینوں ، دو پٹوں اور قمیص کے دامن سے صاف کرنے کا رواج تھا وہاں ساڑھے تین سال کی ایک بچی جس کی عمر داخلے سے بھی کم تھی بلو پھولوں والے ایک سفید رومال کو اتنے طریقے اور سلیقے سے کھولتی استعمال کرتی اور پھر تہ کر کے رکھتی کہ استانیوں کے لیے یہ جیسے ہنسی کا سامان ہوتا۔ چڑیا کی سنجیدگی اور سلیقے پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ وہ استانیوں کے جملوں پر سرخ ہوتی مسکراتی، شرماتی لیکن رومال کو اسی طرح استعمال کرتی اور رکھتی جیسے خیر دین نے اسے سکھایا تھا۔
اس کے بستے میں موجود نوٹ بکس اور کتابیں اگر کبھی خراب ہوئی ہوں گی تو استانیوں کے ہاتھوں سے ہوئی ہوں گی ورنہ چڑیا خود انہیں ایک خزانے کی طرح سنبھال کر طریقے اور احتیاط سے رکھتی تھی۔ کوئی اس کا بستہ کھول کر دیکھتا تو نوٹ بکس اور کتابوں کی ترتیب دیکھ کر بھی حیران رہ جاتا۔ اس کے بستے میں ہر چیز اس کی پراپر جگہ پر تھی اور ہمیشہ پراپر جگہ پر ہی رہتی تھی۔ چڑیا اگر پچاس دفعہ پینسل نکالتی تو ہر بار اسے واپس رکھتے ہوئے جیومیٹری باکس میں ہی رکھتی۔ اسی ترتیب سے جس ترتیب میں اس کے جیومیٹری باکس میں چیزیں تھیں۔




Loading

Read Previous

داستانِ محبت — ندا ارشاد

Read Next

اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا – شکیل بدایونی

2 Comments

  • I like your story

  • Nice epi

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!