عکس — قسط نمبر ۱

آدھے گھنٹے تک گھر میں چھت کی چابی کی تلاش کے لیے بھگدڑ مچی رہی اور جب عملے کو یقین ہو گیا کہ شیر دل کا چھت دیکھے بغیر ٹلنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا تو بالآخر چابی برآمد ہو گئی۔ شیر دل اس دوران بڑے اطمینان سے دو کرسیاں منگوا کر شہر بانو کے ساتھ ماسٹر بیڈروم میں بیٹھا اپنے پی اے کے ساتھ مل کر ٹائلز کی کیٹلاگ دیکھتا رہا۔ شہر بانو بری طرح بے زار بیٹھی رہی لیکن اس نے شیر دل کو وہاں سے چلنے کے لیے نہیں کہا تھا۔ اس کا فائدہ بھی نہیں تھا شیر دل وہاں سے جانے والا تھا بھی نہیں۔ شادی کے شروع کے دنوں میں ہی اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ شیر دل اپنے پروفیشنل معاملات میں اس کی رائے کو نہ اہمیت دیتا تھا اور نہ ہی پسند کرتا تھا۔ شہر بانو نے کبھی اس کے معاملات میں ٹانگ اڑانے کی کوشش بھی نہیں کی تھی۔ وہ زندگی میں کبھی کوئی ایسا کام کرنے کی ہمت بھی نہیں کر سکتی تھی جو شیر دل کو ناپسند ہو۔ وہ اس سے ڈرتی نہیں تھی وہ صرف پاگل پن کی حد تک اس کے عشق میں مبتلا تھی۔




عملے کے افراد نے چابی کی تلاش کے دوران چند بار شیر دل کو باقی گھر دکھانے کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی۔
”باقی گھر چھت کے بعد۔” شیر دل کا جواب دو ٹوک تھا۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ ایک بار وہ اسے اوپر والی منزل سے نیچے لے گئے تو پھر وہ نیچے اس کا اتنا وقت ضائع کرائیں گے کہ ہ یاد رہنے کے باوجود اوپر نہیں آ پائے گا۔ اپنی سرکاری ملازمت کے دوران وہ ماتحت عملے کے سارے پینتروں اور حربوں سے اقف ہو چکا تھا۔
جس چابی کی تلاش میں آدھا گھنٹہ لگا تھا چھت کا تالا اس سے نہیں کھلا تھا۔ وہ زنگ آلود ہونے کے باعث توڑ کر کھولا گیا اور چھت پر پہلا قدم رکھتے ہی شیر دل کو پتا چل گیا تھا کہ عملہ چھت کو اس سے چھپانے کی کوشش میں کیوں مصروف رہا تھا۔ وہ چھت نہیں تھی جڑی بوٹیوں، جھاڑیوں ، گھاس پھونس کا ایک جزیرہ نما جنگل تھا۔ سردیوں کے موسم کے باوجود چھت پر کائی کی تہیں تھیں کئی جگہوں پر وہ کائی جیسے دلدل جیسی شکل اختیار کر گئی تھی اور کائی سے بھری ہوئی چھت پر جگہ جگہ جھاڑیوں نما پودے اگے ہوئے تھے۔ وہ کس طرح وہاں اگ آئے تھے اس کا جواب سائنس دے سکتی تھی یا وہ سرکاری عملہ جن کے تعاون سے وہ نباتاتی گارڈن وہاں معرض وجود میں آیا تھا۔
شیر دل دو قدم سے آگے نہیں بڑھا۔ وہ اپنے جوتوں کا ستیاناس نہیں کر سکتا تھا اور اسے یقین تھا کہ کائی اور گھاس پھونس کے اس جزیرے میں ہر طرح کے حشرات الارض بھی ہوں گے اگر سانپ وغیرہ پائے جاتے تو بھی اسے حیرت نہیں ہوتی۔
”اگلی بار جب میں اس گھر میں آؤں گا تو سب سے پہلے چھت پر آؤں گا۔”اس کے اعلان میں کیا تنبیہہ تھی اس کا ماتحت عملہ جانتا تھا ۔
”ماسٹر بیڈروم میں استعمال کروں گااور چھت اب کبھی لاک نہیں ہوگی۔” وہ کہتے ہوئے سیڑھیاں اتر رہا تھا۔ شہر بانو اس سے پہلے ہی نیچے اتر رہی تھی اور اس نے سیڑھیاں اترتے ہوئے اس کا جملہ سن لیا تھا۔ وہ کسی صورت اس بیڈروم میں رہنے کو تیار نہیں تھی۔ وہاں بونے ہوتے نہ ہوتے لیکن یہ دوسرا قصہ اس کا دل اٹھانے کے لیے کافی تھا۔
پی اے نے ٹھیک کہا تھا نیچے والے بیڈرومز بے حد اچھی حالت میں تھے۔ وہاں تمام جدید سہولیات میسر تھیں اور شہر بانو نے بھی وہیں رہنے کا فیصلہ کر لیا تھا لیکن اس نے فی الحال شیر دل سے اس کا ذکر نہیں کیا تھا۔
گھر سے باہر نکلتے ہوئے شہر بانو اتنی خوش نہیں تھی جتنی وہ اندر جاتے ہوئے ہوئی تھی۔ بلاشبہ وہ گھر بہت شاندار طرز تعمیر کا حامل تھا اور آرکیٹکچر شہر بانو کا میجر رہا تھا۔ وہ آرکیٹکچر نہ بھی پڑھتی تب بھی اسے جنون کی حد تک اس سبجیکٹ میں دلچسپی تھی۔ خاص طور پر برطانوی راج کے زمانے میں بنائی جانے والی برصغیر کی پرانی عمارتوں میں۔
”بابا میرا ٹیڈی…” گاڑی میں بیٹھے ہوئے مثال نے یکدم شیر دل سے کہا وہ چونکا۔
”ٹیڈی کہاں چھوڑ دیا تم نے؟” اس نے مثال سے پوچھا۔




”آئی ڈونٹ نو۔” جواب آیا تھا۔ عملے کے چند ارکان اندر دوڑے گئے تھے اور پندرہ منٹ ہر جگہ تلاش کے باوجود ٹیڈی کہیں نہیں ملا تھا۔
“Leave it miso—-baba will get you another tady” شہر بانو نے بالآخر اس تلاش سے کچھ بیزار ہوتے ہوئے کہا۔ مثال بڑی آسانی سے راضی ہو گئی تھی۔
ریسٹ ہاؤس کی طرف جاتے ہوئے شیر دل نے مثال کو بہلاتے ہوئے کہا.
“Miso is a good girl.” شہر بانو نے مسکرا کر مثال کو دیکھا جو شیر دل کی گود میں بیٹھی ہوئی تھی۔
Yes miso is a very good girl” کوئی ضد نہیں کرتی اب۔”
”Baba i think i know who took my toy” مثال نے ان جملوں کے جواب میں یکدم بے حد سنجیدگی سے کہا۔
‘‘Who?” شیر دل نے پوچھا۔
”There was a boy there, he was asking for my tedy. He wanted to play with it”
I didn’t see any boy there” تم نے کہاں دیکھا؟ “شیر دل نے کچھ حیران ہو کر کہا۔
“In the kitchen.” مثال نے کہا۔
”When?” شیر دل حیران ہوا۔
”When I went to that small room next to the kitchen” مثال نے ہاتھ کے اشارے سے لوکیشن سمجھانے کی کوشش کی۔ شہر بانو سمجھ گئی وہ pantry کا ذکر کر رہی تھی اور وہ وہیں ٹیڈی بھول آئی تھی۔
”شاید کسی سرونٹ کا کوئی بچہ ہو گا۔” شہر بانو نے شیر دل سے کہا۔
”سرونٹ کے بیوی بچے کہاں سے آ گئے۔ مشکل سے ملازموں کو ہی اکاموڈیٹ کیا ہوتا ہے۔ دیکھوں گا میں۔” شیر دل نے شہر بانو سے کہا۔
” He was very ugly” مثال اب بھی بول رہی تھی۔
”Who?” شیر دل بھر چونکا۔
”That boy” مثال نے سنجیدگی سے کہا۔
”No, that’s not nice. ” شہر بانو نے اسے ٹوکا۔
”Mummy he was realy ugly” مثال نے جیسے احتجاج کیا ۔ ”and very small” مثال نے اضافہ کیا۔
”How small?” شیر دل نے پوچھا۔
‘‘Only this much” مثال نے دونوں ہاتھوں کے اشارے سے جیسے اس لڑکے کی جسامت بتائی۔ وہ تقریباً ایک فٹ کا سائز بتا رہی تھی۔ شہر بانو ہنس پڑی۔
”تمہاری بیٹی اور اس کی Fairy tales۔” شہر بانو نے شیر دل پر طنز کیا۔ مثال کہانیاں سنانے کی عادی تھی اور شیر دل اس کی کہانیاں شوق سے سنتا تھا۔ شیر دل مسکرایا۔
‘‘And then he disappeared’’ شیر دل نے مثال کے اگلے جملے پر دھیان دینے کے بجائے شہر بانو سے کہا۔
”تمہیں گھر کیسا لگا؟”
”میرا خیال ہے ریسٹ ہاؤس پہنچ کر بات کرتے ہیں۔” شہر بانو نے جیسے شیر دل کو ڈرائیور کی موجودگی کا احساس دلایا۔ شیر دل کو اسی جواب کی توقع تھی… یعنی شہر بانو کو اعتراضات تھے شیر دل نے بے اختیار گہری سانس لی۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

داستانِ محبت — ندا ارشاد

Read Next

اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا – شکیل بدایونی

2 Comments

  • I like your story

  • Nice epi

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!