عکس — قسط نمبر ۱

چھت کے درمیان میں ایک فانوس بھی لٹکا ہوا تھا اور سٹنگ ایریا کا فرش کارپٹ اور rugsسے coveredتھا۔ وہاں معمولی اضافوں کے باوجود سب کچھ اسی طرح رکھنے کی کوشش کی گئی تھی جیسے وہ کسی زمانے میں ہوتا تھا… آتش دان تھا جہاں اب گیس ہیٹر نظر آ رہا تھا۔ بڑے بڑے روشن دان جو کبھی کھلے رہتے ہوں گے اب بند تھے اور ایک بہت بھاری بھرکم اسپلٹ یونٹ نے ان کے فرائض اپنے ذمے لے لیے تھے سب سے آکورڈ چیز اس ہال کمرے کا ٹائل فلور تھا جو اس کمرے میں داخل ہوتے ہی شہر بانو کی نظر میں آ گیا تھا اور جسے تبدیل کرنے کے لیے شیر دل کے عملے کا ایک آدمی ایک کیٹلاگ لیے وہاں کھڑا تھا۔ ہال کے بالکل سامنے کی دیوار کے ساتھ ایک بے حد کشادہ سیڑھی اوپر والی منزل پر جا رہی تھی۔




”I hate the floor” شہر بانو نے جیسے اعلان کرنے والے انداز میں کہا۔
”And I have the alternative” شیر دل نے ترکی بہ ترکی کہا۔ ”کیٹلاگ ہے پی اے کے پاس اس میں سے ابھی ٹائل سلیکٹ کر لیتے ہیں… وہ کچن ہے۔” شیر دل نے اس سے کہتے کہتے دائیں طرف کمرے کے آخری کونے میں موجود ایک دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
وہ دونوں اب ساتھ ساتھ چلتے کچن میں آ گئے تھے جہاں کام کرنے والا عملہ اب بے حد مستعد کھڑا تھا۔
”اور وہ دروازہ کچن گارڈن اور سرونٹ کوارٹر تک جاتا ہے۔” شیر دل اسے مزید بتا رہا تھا۔ وہ دونوں اب ساتھ ساتھ عملے کو کچن کے حوالے سے ہدایات بھی دے رہے تھے۔
ڈی سی کے طور پر شیر دل کی وہ پہلی پوسٹنگ تھی۔ اس صوبے کے قابل ترین نوجوان آفیسرز میں وہ اپنے فیملی بیک گراؤنڈ کی وجہ سے ایک بے حد ممتاز مقام رکھتا تھا۔
شہر بانو ابھی تک کچن کا جائزہ لے رہی تھی جو نئے اور پرانے طرز تعمیر کا ایک funny display تھا۔ وہ اس گھر کا واحد حصہ تھا جہاں ضرورت تخلیق ذوق پر حاوی نظر آ رہی تھی۔ بڑے بے ڈھنگے انداز میں کچن اور pantryمیں کیبنیٹس اور ریکس کا اضافہ کیا گیا تھا اور مناسب صفائی نہ ہونے کی وجہ سے ان کیبنٹس اور ریکس کے ساتھ دیواروں اور فرش کا حلیہ بھی خراب تھا۔ بڑے بڑے روشن دان وہاں بھی تھے اور کھانا پکانے والی جگہ پر ایک بے حد شاندار چمنی تھی… لیکن شہر بانو کو یقین تھا کہ وہ چمنی صفائی نہ ہونے کی وجہ سے مکمل طور پہ نہ سہی لیکن بڑی حد تک بلاکڈ ہو گی۔ مکڑی کے جالوں، گردو غبار اور شاید پرندوں وغیرہ کے گھونسلوں کی وجہ سے بھی جو کچن کے عقب میں دیواروں پر چڑھی بیلوں اور سبزے کی بہتات کی وجہ سے اگر روشن دانوں اور چمنی تک پہنچ گئے ہوں تو یہ ناممکنات میں سے نہیں تھا۔ اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ چمنی میں چڑیوں کے نہیں چمگادڑوں کے ٹھکانے تھے جن کا سامنا اسے بعد میں ہونے والا تھا۔
چمنی ہی کے حصے میں چولہا رکھنے کی جگہ سے کچھ اوپر دیوار میں ایک ایگزاسٹ فین لگایا گیا تھا جس کی باہر والی جالی چکنائی سے اٹی ہوئی تھی اور دھویں سے سیاہ تھی۔ نیچے موجود کوکنگ رینج بہت پرانا تو نہیں تھا لیکن کثرت استعمال اور ناقص صفائی سے وہ بھی اس وقت کم سے کم سو سال پرانا لگ رہا تھا۔ سنک کے پاس ایک جگہ واٹر فلٹر لگا ہو تھا اور وہ اندراور باہر سے جتنا گندا لگ رہا تھا اگر کوئی دیکھنے والا فلٹر کا نہیں بلکہ نلکے کا پانی پینے پر اصرار کرتا تو یہ سمجھداری سمجھی جاتی۔ ایسی ہی کچھ حالت پاس موجود سنک کی تھی۔
کچن میں جو تھوڑی بہت صفائی فی الحال موجود تھی اس کی وجہ یہی تھی کہ وہاں پچھلے کئی دنوں سے کچھ نہیں پک رہا تھا۔ کم از کم اس کے علاوہ شیر دل کو اور کوئی وجہ نظر نہیں آئی تھی اگر اس کے وزٹ کی توقع کرتے ہوئے کچھ صاف کرنے کی کوشش کی گئی تھی تو وہ بھی اسے نظر نہیں آ رہا تھا۔ اس نے ایسے متوقع اور یقینی وزٹ پر سرکاری عملے کی لیپا پوتی کی اس سے کئی بہتر کوششیں دیکھی تھیں… ملامت اور ڈانٹ پھٹکار کا فی الحال کوئی فائدہ نہیں تھا۔ یہ پروگرام بعد میں بھی منعقد کیا جا سکتا تھا فی الحال ضروری تھا کہ کچن میں جو تبدیلیاں مطلوب تھیں ان کے بارے میں ہدایات دی جاتیں سو شیر دل وہی کرتا رہا اور شہر بانو خاموشی سے کچن کا جائزہ لیتی رہی۔ وہ جانتی تھی کہ ہدایات کی صرف یہ پہلی قسط تھی۔ ایسی کئی اقساط آگے چل کر بھی ادا کرتی تھیں اسے اور شیر دل کو… کیونکہ وہ گھر بلاشبہ شاندار تھا لیکن فرنیچر کے علاوہ وہاں مرمت کے کافی ایشوزتھے۔




”مجھے یہ تو نہیں پتا کہ شہر کی ایڈمنسٹریشن کے لیے میں کیا کر سکتا ہوں لیکن مجھے یہ ضرور پتا ہے کہ اس شہر میں ہیپاٹائٹس سی کا وائرس پھیلا تو اس کی وجہ ڈی سی ہاؤس کے اس کچن میں پکایا ہوا کھانا کھا کر جانے والے گیسٹ ہوں گے۔” شہر بانو نے کچن سے نکلتے ہوئے اپنے عقب میں شیر دل کو کہتے سنا۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ آئی۔ وہ شیر دل کی ان ٹنگ ان چیکس ریمارکس کی عادی تھی۔
”ماسٹر بیڈ روم کہاں ہے؟” واپس ہال میں آتے ہوئے اس نے شیر دل سے پوچھا۔
”اوپر…” اس نے سیڑھی کی طرف اشارہ کیا۔ شہر بانو حیران ہوئی وہ پہلا سرکاری گھر تھا جس کا ماسٹر بیڈ روم اوپر تھا۔
”نیچے کیا بیڈ روم ہی نہیں ہیں؟” اس نے شیر دل سے پوچھا۔
”تین بیڈ روم ہیں نیچے لیکن ماسٹر بیڈ روم اوپر ہے۔” وہ ایک بار پھر مثال کو گود میں لیے ہوئے کہہ رہا تھا۔
ماسٹر بیڈ روم ایک وسیع و عریض کمرا تھا لیکن شہر بانو کو اس کی حالت دیکھ کر حیرت ہوئی۔ واضح طور پر وہ بہت عرصے سے زیر استعمال نہیں تھا۔ فرش، دیواریں، کھڑکیاں، دروازے ہر چیز ابتر حالت میں تھی۔
”یہ کوئی استعمال نہیں کر رہا تھا؟” شہر بانو نے جیسے کچھ حیرانی سے کمرے میں گھومتے ہوئے شیر دل سے پوچھا۔ کمرے میں برائے نام فرنیچر تھا اور وہ بھی خستہ حالت میں۔
“نہیں۔ برہان صاحب صرف نیچے کا فلور ہی استعمال کر رہے تھے۔ وہیں کا ایک بیڈ روم ماسٹر بیڈ روم کے طور پر ان کے استعمال میں تھا۔” شیر دل نے اسے بتایا۔
”یہ ماسٹر بیڈ روم تو بہت عرصے سے کوئی بھی ڈی سی صاحب استعمال نہیں کر رہے… بند ہی رہتا ہے یہ ….سب لوگ نیچے ہی رہتے ہیں۔” پی اے نے شیر دل کی بات میں اضافہ کیا۔
”نیچے والے کمرے کیا زیادہ اچھے ہیں….؟” شہر بانو نے کھڑکتی سے باہر جھانکتے ہوئے پوچھا۔ وہاں سے وہ آٰس پاس پھیلے وسیع و عریض لان اور لان سے دور سڑک تک دیکھ سکتی تھی۔ ویو زبردست تھا۔
”نہیں میڈیم۔ وہ زیادہ اچھے تو نہیں ہیں لیکن شروع سے وہی استعمال ہوتے آرہے ہیں۔ وہاں ساری سہولیات ہیں۔ اس کمرے کے باتھ روم میں بھی ابھی پرانےfixturesہی ہیں… پھر چھت بھی کبھی کبھار ٹپکنے لگتی ہے۔ اگر زیادہ بارش ہو جائے۔” شہر بانو اور شیر دل نے پی اے کی بات پر بے اختیار سر اٹھا کر چھت کو دیکھا۔ چھت کی حالت واقعی خراب تھی اور وہ کبھی کبھار نہیں یقیناً باقاعدگی سے ٹپکتی تھی اور ایک جگہ سے نہیں بلکہ دو تین جگہ سے۔
”اور بھی کچھ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے یہ کمرا استعمال نہیں ہوتا۔” پی اے نے بات جاری رکھتے ہوئے آخری جملہ کچھ ہچکچا کر کہا۔ شیر دل نے چونک کر اسے دیکھا۔
”اور کیا وجوہات ہیں؟” پی اے چند لمحے جیسے کچھ تامل کرتا رہا پھر اس نے کہا۔
”اس کمرے میں کچھ اثرات ہیں۔” شیر دل اورشہر بانو بیک وقت اس کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔
”کیسے اثرات…؟” شیر دل نے ماتھے پر چند بلوں کے ساتھ کہا۔
”آپ کا مطلب ہے جن بھوت؟” اس نے پی اے جواب سے پہلے ہی کہا۔ پی اے نے سر ہلایا۔ شیر دل اور شہر بانو نے بے اختیار ایک دوسرے کو دیکھا۔
”مجھے تو پہلے نہیں بتایا تم نے یہ؟” شیر دل نے کچھ تجسس کے عالم میں کہا۔
”میں نے سوچا آپ کو پتا ہی ہو گا۔” پی اے نے کہا۔ شہر بانو اب جیسے ازسر نو اس کمرے کا جائزہ لے رہی تھی
”مجھے کیسے پتا ہو سکتا ہے… اور کیا بیک گراؤنڈ ہے ان جن صاحبان کا… تنگ کرتے ہیں یا صرف رہائش پذیر ہیں…؟” شیر دل بھی اب اس کمرے کو ایک نئی نظر سے دیکھ رہا تھا۔
”جن نہیں ہیں وہ…” پی اے کچھ ہچکچایا۔ شیر دل اور شہر بانو نے ایک بار پھر اسے دیکھا۔ ”وہ بونے ہیں۔” پی اے نے بات مکمل کی۔
”بونے…؟” شہر بانو نے شیر دل کو دیکھا۔
”Dwarfs” اس نے جواب دیا اور ہنسا۔
”انٹرسٹنگ!” وہ جیسے اس انکشاف سے لطف اندوز ہوا تھا۔
”توبونے ہیں اس کمرے میں۔” اب وہ مسکراتی ہوئی نظروں سے کمرے کا جائزہ لے ہا تھا۔ پی اے زیادہ سنجیدہ ہوا۔ اس کی ہنسی پر اسے لگا شیر دل کو اس کی بات پر یقین نہیں آیا۔
”کتنے بونے صاحب ہیں یہاں…؟” شیر دل نے کچھ دلچسپی لیتے ہوئے کہا۔




Loading

Read Previous

داستانِ محبت — ندا ارشاد

Read Next

اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا – شکیل بدایونی

2 Comments

  • I like your story

  • Nice epi

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!