فارس گیٹ کھول کر اندر آیا تو صحن میں ثمن اور ٹیپو کرکٹ کھیل رہے تھے۔ اسے یوں اندر آتا دیکھ کر دونوں کو ہی بریک لگ گئے اور کھیل رک گیا۔
”فارس بھائی!“
دونوں نے منہ بناکر ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ فارس گھر آیا تھا تو یقینا خیر نہیں تھی۔ فارس اس گھر کے لئے ایک ناپسندیدہ شخص تھا۔ کوئی زبان سے نہ بھی کہتا مگر فارس کو بھی اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ اس گھر میں اُسے سوائے رانیہ کے اور کوئی بھی پسند نہیں کرتا اور یہ احساس اس کی بدمزاجی میں اضافہ کردیتا تھا۔
اس نے صحن میں آکر بڑے اکھڑ سے انداز میں گیٹ بند کیا۔ ثمن اور ٹیپو پر ایک ناپسندیدہ نظر ڈالتا آگے بڑھا۔
اس کے چہرے اور آنکھوں میں سر د مہری تھی یوں جیسے بڑے ہی برے موڈ میں یہاں آیا ہو۔
وہ اکثر اسی طرح کے موڈ میں یہاں آتا تھا۔ لڑنے جھگڑنے شکایتیں کرنے، اور بحث و تکرار کرنے……
”السلام علیکم فارس بھائی!“
ثمن اور ٹیپو نے مجبوراً اسے سلام کیا۔ ناپسندیدگی اپنی جگہ مگر وہ رانیہ کا ہونے والا شوہر بھی تو تھا۔
فارس نے سلام کا جواب نہیں دیا۔
”اتنی بڑی ہوگئی ہو اور ابھی تک کرکٹ کھیلتی ہو!“
ہمیشہ کی طرح اس نے آتے ہی اعتراض کیا۔ اس کی عادت ہی ایسی تھی۔ لوگوں پر اعتراض اور تنقید کرنا، انہیں طعنے دینا، لوگوں کی خامیوں کواچھالنا…… اس کی انہی عادتوں کی وجہ سے تو کوئی اسے پسند نہیں کرتا تھا۔
ثمن کو اس کا یہ انداز اور اعتراض بہت ہی برا لگا۔ بھلا وہ اُسے روکنے ٹوکنے والا کون ہوتا تھا۔
”کیوں فارس بھائی! اب تو لڑکیوں کی نیشنل کرکٹ ٹیم بھی ہے۔ کیا آپ نے کبھی انہیں کرکٹ کھیلتے نہیں دیکھا!“
وہ بھی ثمن تھی اس نے ہوا میں بیٹ لہراتے ہوئے دھڑکے سے اسے جواب دیا۔ فارس نے گھور کر اُسے دیکھا پھر اُس نے سرجھٹک دیا۔
”بڑے ہی منہ پھٹ اور بدتمیز بچے ہیں جیمو ماموں کے!“ وہ بڑبڑاتے ہوئے صحن پار گیا۔
پھر سیدھا اندر آیا۔
ماموں لاؤنج میں بچھے تخت پر گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے بیٹھے ریڈیو پر پرانے گانے سن رہے تھے۔
فارس پر نظر پڑی تو بری طرح چونکے پھر سیدھے ہوکر بیٹھ گئے۔
”یہ آج یہاں کیسے؟“
انہوں نے اسے دیکھ کر اپنی بے زاری چھپالی اور زبردستی مسکرائے۔
”آؤ فارس میاں …… بیٹھو۔“
انہوں نے بادل نخواستہ اس کا استقبال کیا۔ آخر کچھ بھی تھا وہ اس گھر کا ہونے والا داماد تھا۔
”آپ کیا ہر وقت پرانے گانے سنتے رہتے ہیں؟ آج کل کے دور میں کون ریڈیو سنتا ہے۔“
وہ ان پر بھی تنقید کرنے سے باز نہیں آیا۔
ماموں نے ہمیشہ کی طرح اس کا یہ انداز نظر انداز کردیا اور ریڈیو بند کرکے سائیڈ پر رکھتے ہوئے یہ شعر پڑھا۔
میری شاعری کو برا کہنے والے
کاش کہ تیرا کوئی ذوق ہوتا
”تو آپ مجھے بدذوق کہہ رہے ہیں؟“
اس نے تیوری چڑھا کر پوچھا اور ان کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گیا۔
”ارے نہیں …… میں نے تو بس شعر پڑھا ہے۔“
ماموں نے اس کی پیشانی کے بل نظر انداز کرتے ہوئے بظاہر مسکرا کرکہا۔
مگر فارس کے انداز میں تبدیلی نہیں آئی۔
”مگر آپ کا اشارہ تو میری طرف ہی تھا۔ میں کوئی بے وقوف تو نہیں ہوں۔“
وہ اسی انداز میں بولا۔
ماموں اس کی بداخلاقی کے عادی تھے۔
”ارے میاں! ایک شعر کی وجہ سے کیا ہم سے جھگڑا کروگے؟شعر پڑھنا تو ہماری عادت ٹھہری! میں تو یہ کہہ رہا تھا کہ ریڈیو کے عاشق تو آج بھی موجود ہیں …… خیر……“
ماموں نے بات کو سمیٹنے کی کوشش کی پھر ذرا رکے۔
”تم سناؤ! کیسے آنا ہوا؟ کیا تمہاری نوکری لگ گئی؟“
انہوں نے لہجے کو خوشگوار بناتے ہوئے مطلب کی بات بھی پوچھ لی۔ سوچا کہ کیا خبر، وہ آج خوشخبری سنانے ہی آیا ہو۔
وہ ان کی بات پر لمحہ بھر کے لئے ٹھٹکا پھر اطمینان بھرے انداز میں صوفے کی پشت سے ٹیک لگالی اور ٹانگ پر ٹانگ رکھ لی۔
”میری منگیتر کروڑوں کی جائیداد کی مالک ہے۔ مجھے نوکری کرنے کی کیا ضرورت ہے؟“
وہ بات کو مذاق میں اڑاتے ہوئے ہنسا۔
ماموں اس مذاق پر مسکرا تک نہ سکے۔
”کروڑوں کی جائیداد!“
ماموں کو اس کی ذہانت پر افسوس ہوا۔
”جی ہاں …… میں دادا کی حویلی کی بات کررہا ہوں۔ اس کی مالیت کروڑوں میں تو ہوگی، ہے نا! ویسے دادا نے ہمارے ساتھ بہت زیادتی کی۔بڑی ہی ناانصافی کی، امی ابو نے ساری زندگی کتنی خدمتیں کی ان کی مگر……“
وہی گلے شکوے، ہمیشہ کی طرح دہرائی گئی شکایتیں، ماموں بے زاری سے سنتے رہے۔
کچھ لوگوں کی باتیں سننے کے لئے بڑی ہمت اور حوصلہ چاہیے ہوتا ہے۔
پھر وہ ذرا ناراض سے انداز میں گویا ہوا۔
”میں گیا تھا وہاں، کہ ذرا حویلی کی حالت دیکھ لوں مگر کرائے داروں نے مجھے اندر ہی آنے نہیں دیا۔ بڑے ہی بدتمیز لوگ ہیں۔ پتا نہیں کہاں سے مل گئے آپ کو ایسے کرائے دار……“
وہ بے حد خفا تھا۔ ماموں ٹھٹک گئے۔
”تو تم وہاں گئے کیوں؟“
انہیں بھی اس کی یہ حرکت بری لگی۔
”میری منگیتر کا گھر ہے۔ میں وہاں جاسکتا ہوں۔“
وہ رعب جماتے ہوئے ڈھٹائی سے بولا۔
”تو رانیہ کو ساتھ لے جاتے!“
ماموں خفا ہوئے۔
وہ فارس کی حرکتوں سے عاجز آچکے تھے۔ آخر وہ اس کی کس کس بے وقوفی کو نظر انداز کرتے۔
”وہ جانے پر راضی نہیں ہوئی۔ بڑا پریشر ہے اس پر آپ لوگوں کا…… آپ لوگوں نے نفسیاتی طور پر اُسے سہما کر رکھا ہوا ہے۔ حویلی کا سارا کرایہ بھی آپ لوگ خود ہی رکھتے ہوں گے۔“
وہ بدلحاظی سے بولا اور موقع پاکر گلہ بھی کردیا۔
ماموں کو اس کا یہ انداز بہت برا لگا۔ وہ اس کے سامنے تحمل کا مظاہرہ کرتے کرتے تھک چکے تھے۔
”تو تم کیا چاہتے ہو برخوردار! کہ حویلی کا کرایہ تمہیں دے دیا کریں!“
انہوں نے چبھتے ہوئے انداز میں کہا۔
وہ شاید اسی جملے کا منتظر تھا۔
فوراً سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔
”میں یہ چاہتا ہوں کہ……“
وہ اپنے مطلب کی بات پر آگیا۔
”میں اور رانیہ شادی کے بعد حویلی شفٹ ہوجائیں۔“
عجیب فرمائش تھی۔
وہ اپنی طرف سے ساری پلاننگ کرچکا تھا۔
اندر آتی امی بھی اس بات پر بری طرح ٹھٹک گئیں۔ وہ تو اس کی آمد کا سن کر اسے چائے کھانے کاپوچھنے آئی تھیں۔ مگر یہاں تو کوئی اور ہی بحث جاری تھی۔
ماموں تو کچھ دیر اس کے اس مطالبے پر انگشت بدنداں رہ گئے۔
”مگر حویلی تو ہم نے کرائے پر دے رکھی ہے۔“
انہوں نے اسے صاف جواب دے دیا۔
”تو نکال دیں کرائے داروں کو۔“
اس نے دھونس جماتے ہوئے کہا۔
ماموں نے بمشکل ضبط کیا۔
”وہ حویلی شہر سے باہر ایک چھوٹے سے قصبہ میں واقع ہے۔ آبادی سے دور، الگ تھلگ، ایک ویرانے میں ہے۔ وہاں رہنا بہت مشکل ہے۔“
ماموں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ شاید اس کی موٹی عقل میں بات سما جائے مگر اُسے تو غصہ ہی آگیا۔
”رانیہ ساری زندگی اس حویلی میں رہی ہے۔ ہم سب کا بچپن ہی وہیں گزرا ہے…… تو اب اس حویلی میں رہنے میں کیا قباحت ہے۔“
وہ اکھڑ انداز میں بولا۔ وہ ماموں کی دلیلوں سے بالکل متفق نہیں تھا۔
”اس وقت اور بات تھی۔۔حویلی میں بھرا پر ا خاندان رہتا تھا۔ اب تین لوگ اتنی بڑی حویلی میں رہ کر کیا کریں گے؟تم تو سارا دن گھر پر رہو گے نہیں، رانیہ اور تمہاری والدہ کو وہاں رہتے ہوئے مشکلات پیش آئیں گی۔ حویلی کے اطراف میں نہ اتنی آبادی ہے، نہ بازار ہے، پھل سبزی لینے کے لئے بھی اتنی دور جانا پڑتا ہے۔ کرائے داروں کی بات الگ ہے۔ وہ جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہتے ہیں۔ تین خاندان آباد ہیں وہاں، اور پھر تمہارا اپنا گھر بھی تو ہے۔ شادی کے بعد رانیہ کو اپنے گھر لے کر جاؤ۔“
ماموں نے گہری سنجیدگی کے ساتھ رسانیت سے کہا۔
”مگر مجھے وہ حویلی پسند ہے۔ میں وہاں رہنا چاہتا ہوں تو کسی کو کیا مسئلہ ہے۔ میرے بچپن کی بہت ساری یادیں اس حویلی سے وابستہ ہیں۔“
فارس اپنی ضد پر اڑا رہا۔
ماموں نے گہرا سانس لے کر گاؤتکیے سے ٹیک لگالی۔
”دیکھو فارس! میں تمہاری حویلی سے وابستگی سے بخوبی واقف ہوں۔ مگر اب حویلی وہ حویلی نہیں رہی جو تمہارے بچپن میں ہوا کرتی تھی۔ اب حویلی کو دیمک لگ گئی ہے۔ راہداریوں کا رنگ و روغن خراب ہوگیا ہے۔ اب روشن دانوں میں چڑیاں گھونسلے نہیں بناتیں درختوں میں جھولے بھی نہیں پڑے ہوئے۔ بچپن میں جس فوارے کے پاس بیٹھ کر تم بطخوں سے کھیلا کرتے تھے اور کنول کے پھول پانی پر تیرتے دیکھ کرخوش ہوا کرتے تھے۔ اب وہ فوارہ سوکھ چکا ہے۔ اب وہاں کرائے دار گھر کی فالتو چیزیں رکھتے ہیں۔ اب اس خستہ حال حویلی میں ویسا کچھ نہیں ہے، رنگین آئینے، ریشمی پردے، پھول، پودے، فوارے…… اب تو وہ کسی کے لئے بس سر چھپانے کی جگہ ہی ہے۔“
ماموں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تاکہ وہ اپنے یوٹوپیا سے باہر آجائے۔ مگر وہ فارس ہی کیا جس کی سمجھ میں با ت آسانی سے آجائے۔
”ماموں! آپ ہمیشہ مجھے ٹالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر اب میں آپ کی باتوں میں نہیں آؤں گا۔ آپ بہانے نہ بنائیں اور حویلی کے کاغذات میرے حوالے کردیں۔“
وہ اکھڑ سے انداز میں بولا۔
”کیوں؟“
ماموں غصہ پی گئے۔
”وہ رانیہ کی حویلی ہے اور میں اس کا ہونے والا شوہر ہوں۔“
وہ اپنی حیثیت اور اہمیت کے بارے میں کچھ زیادہ ہی خوش فہم تھا۔
”وہ حویلی رانیہ اور عنایا کی ہے اور وہ کاغذات میرے پاس امانت ہیں …… اور ویسے بھی تم نے حویلی کے کاغذات کا کیا کرنا ہے؟“
ماموں نے ذرا سخت لہجے میں کہا۔
وہ انہیں ہی گھور رہا تھا۔
”آپ بھلا حویلی کے کاغذات کیوں دیں گے! آپ تو اس لکڑی کے تخت پر بیٹھ کر خود کو بادشاہ سمجھ بیٹھے ہیں۔“
وہ بدتمیزی سے بولا۔
ماموں نے اُسے افسوس سے دیکھا۔
”اب کیا تمہیں میرے تخت پر بیٹھنے پر بھی اعتراض ہے؟“
ماموں اسے سمجھاتے سمجھاتے تھک گئے تھے۔
”مجھے آپ کے حکومت کرنے پر اعتراض ہے۔ آپ رانیہ اور عنایا کو چھوٹی بچیوں کی طرح ٹریٹ کرنا چھوڑ دیں۔ اب آپ بوڑھے ہوگئے ہیں۔ کب تک ان کے care taker بنے رہیں گے۔ وہ دونوں اب بالغ ہیں۔ اپنے فیصلے خود کرسکتی ہیں۔ آپ اب ان کے معاملات میں دخل دینا بند کردیں۔“
وہ بلند آواز میں بڑی بدتمیزی کے ساتھ بول رہا تھا۔
ماموں ضبط کئے بیٹھے بمشکل اسے برداشت کررہے تھے۔
یہ شور سن کر ثمن، ٹیپو، عنایا دروازے، کھڑکیوں کی اوٹ سے لاؤنج میں جھانکنے لگے۔
فارس کی بدتمیزیاں، اس کا مزاج، اس کا غصہ، اس کی عادتیں ناقابل برداشت تھیں۔
وہ جب بھی یہاں آتا، لڑائیاں، جھگڑے، اختلافات ہوتے۔
گھر کا ماحول خراب ہوتا۔ مگر اسے تو کسی بات کا احساس ہی نہیں تھا۔
وہ تمیز، تہذیب، اقدار سے دور تھا۔
ماموں کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ آخر وہ اسے کیسے چپ کروائیں۔
”حویلی کا سارا کرایہ آپ ہی کی جیب میں جاتا ہوگا۔ کتنے ٹھاٹ سے رہ رہے ہیں آپ لوگ۔ یہ گھر بھی شاندار ہے…… صحن میں گاڑی بھی کھڑی ہے۔ گھر میں ملازم بھی ہیں۔ آپ کی پنشن بھی آتی ہے، پیسے کی ریل پیل ہے، آپ کے گھر تو…… واہ…… واہ……“
اس کے لہجے میں حسد بول رہا تھا۔
”کیوں نظر لگا رہے ہو میاں؟“
ماموں نے اسے ٹوکا۔
”نظر نہ لگاؤں تو کیا کروں! آپ کا نام تو جیمو ماموں کے بجائے بادشاہ ماموں ہونا چاہیے تھا۔“
وہ بدلحاظی سے بولا۔
بہت دیر سے خاموش بیٹھی امی نے سخت لہجے میں فارس کی خبر لی۔
”فارس! بزرگوں سے بات کرنے کا یہ کون سا طریقہ ہے۔ حویلی کے کرائے کی ساری رقم میرے پاس آتی ہے۔ میں یہ گھر چلاتی ہوں۔ سو اخراجات ہیں ہمارے۔ بلز ہیں، گھر کے خرچے ہیں، ہم ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں۔ مجھے رانیہ اور عنایا کی شادی کے لئے رقم بھی جمع کرنی ہے اور ویسے بھی یہ ہمارے گھر کا معاملہ ہے۔ تمہیں اس میں دخل اندازی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔“
امی نے اُسے ڈانٹا۔
فارس یہ ڈانٹ سن کر بھڑک اُٹھا۔
”واہ! اب آپ لوگ میری بے عزتی کریں گے۔ گھر آئے مہمان کی یہ عزت افزائی ہوتی ہے! آخر آپ لوگ ذرا سی بات کا بتنگڑ کیوں بنارہے ہیں! چلیں آپ حویلی کیکاغذات نہیں دینا چاہتے تو نہ دیں، مگر حویلی تو کرائے دار سے خالی کروالیں۔ میں اور رانیہ شادی کے بعد وہاں شفٹ ہوجائیں گے۔“
ماموں اور امی بے بسی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔
”رانیہ آئے گی تو ہم اس سے مشورہ کریں گے۔“
ماموں نے بات سمیٹنے کی کوشش کی۔
”رانیہ تو ایک بے وقوف لڑکی ہے۔ وہ حویلی کی مالک ہے مگر آپ لوگوں کے خوف کی وجہ سے کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی۔“
وہ کہتے ہوئے ذرا رُکا۔
ماموں گہرا سانس لے کر چپ ہوگئے۔
امی سر تھامے بیٹھی تھیں۔
”مگر میں فیصلہ سنانے آیا ہوں۔ حویلی خالی کروائیں، پھر ہی بارات لے کر آؤں گا۔“
وہ اکھڑ انداز میں فیصلہ سنا کر اٹھ کھڑا ہوا۔ ماموں ٹکر ٹکر اسے دیکھنے لگے۔
”اتنی بدتمیزی…… یہ فیصلہ تھا، یا دھمکی تھی……“وہ سوچتے ہوئے الجھ گئے۔
امی اسے ڈانٹنا چاہتی تھیں مگر ان کے منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکل سکا۔
فارس تو دھونس جماکر چلا گیا۔
گھر والے پریشان بیٹھے رہ گئے۔
”اب کیا کریں؟“
امی نے سر دوپٹے سے باندھ لیا۔
ان کا بلڈپریشر بڑھ گیا تھا۔
ماموں بھی متفکر تھے۔
”اگر وہ حویلی میں ایک بار داخل ہوگیا تو اُسے وہاں سے نکالنا مشکل ہوجائے گا۔ وہ اور اس کی ماں حویلی پر قبضہ کرلیں گے اور یہی تو وہ لوگ چاہتے ہیں۔“
انہوں نے سوچتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔
وہ دور اندیش تھے اور فارس کی فطرت سے واقف تھے۔
”وہ ہم سے اتنی بدتمیزی کرکے گیا ہے۔ منہ پر دھمکی دے کر چلا گیا۔ہم تو فارس سے رانیہ کا رشتہ کرنے ہی نہیں چاہتے تھے۔ بس رانیہ کی ضد کی وجہ سے مجبور ہوگئے۔ اب ماں باپ کی پسند تو کوئی پوچھتا ہی نہیں ہے۔ بچے اپنی مرضی سے ہی فیصلے کرتے ہیں۔“
امی بھی بے حد خفا تھیں۔
”وہ رانیہ سے مشورہ کرکے ہی آیا ہوگا۔ اتنی جرأت اُسے رانیہ کی وجہ سے ہی ملی ہے۔“
ماموں نے سوچتے ہوئے کہا۔
ان کے ماتھے پر فکر مندی کی لکیریں نمایاں تھیں۔
”ارے وہ لالچی لوگ ہیں، حریص ہیں، چالاک اور مکار ہیں۔ مگر رانیہ کو یہ بات سمجھ نہیں آتی۔ میں فارس اور فریدہ کی اصلیت اچھی طرح جانتی ہوں۔ کاش ہم نے یہ منگنی نہ کی ہوتی، تو آج اس سے اتنی باتیں نہ سننی پڑتیں۔
رانیہ تھیٹر سے گھر آئی تو گھر میں عجیب ساموحول تھا۔
فارس اُسے فون پر ساری رپورٹ دے چکا تھا۔
کمرے میں عدالت سی لگی تھی۔
”میں نے ہی فارس سے کہا تھا کہ وہ آ پ لوگوں سے خود بات کرلے۔“
سب کے متفکر چہروں کو دیکھتے ہوئے اس نے سنجیدگی سے بات شرو ع کی۔
”بات کرنے نہیں، وہ تو ہم سے لڑنے جھگڑنے آیا تھا۔ اور ہمیں دھمکیاں دے کر چلا گیا۔ میں پوچھتی ہوں کہ یہ بزرگوں سے بات کرنے کا کون سا طریقہ ہے! کیا اسے اتنا بھی نہیں معلوم کہ کسی کے گھر جاکر تمیز و تہذیب سے پیش آیا جاتا ہے۔“
امی نے خفگی سے کہا۔
ان کے چہرے سے غصہ جھلک رہا تھا۔
”امی! وہ حویلی فارس کو بہت facinate کرتی ہے…… وہ اس معاملے میں بہت جذباتی ہے۔ وہ وہاں رہنا چاہتا ہے۔ اس کے بچپن کی بہت سی یادیں وہاں سے وابستہ ہیں۔
رانیہ فارس کی وکالت کررہی تھی۔
امی اور ماموں کو اتنا افسوس فارس کی بدتمیزی پر نہیں ہوا تھا جتنا رانیہ کی بے وقوفی پر ہوا۔
”بے وقوف لڑکی۔“
ماموں آ ہ بھر کر بڑبڑائے۔
فارس کو کیا کہتے، قصور تو رانیہ کابھی تھا۔پردہ تو اس کی عقل پر پڑا ہوا تھا۔ اگر اُسے رانیہ کی سپورٹ حاصل نہ ہوتی تو وہ کبھی ایسے بدتمیز آدمی کو اپنے گھر میں گھسنے ہی نہ دیتے۔
انہیں رانیہ کے ردعمل سے بڑی مایوسی ہوئی۔
”فارس، آپ لوگوں سے بات کرنے آیا تھا۔ تو کم از کم اُسے چائے پانی ہی پوچھ لیتے……“
اس نے ذرا جھجک کر گلہ کیا۔
”تو یہ شکایت بھی تم تک پہنچ گئی۔ ارے اس نے تو ہمیں موقع ہی نہیں دیا کہ اسے چائے پانی کا پوچھ لیتے۔وہ ہم سے اتنی بدتمیزی کررہا تھا۔ گھر کا ماحول اس کی وجہ سے خراب ہوکر رہ گیا۔ رشتے کا لحاظ نہ ہوتا تو ہم اُسے دو منٹ بھی اپنے گھر میں برداشت نہ کرتے۔“
امی نے خفگی سے کہا۔
”اور وہ یہاں چائے پینے آیا بھی نہیں تھا۔ وہ تو ہم سے حویلی کے کاغذات مانگنے آیا تھا۔“
ماموں نے جتاتے ہوئے کہا۔
رانیہ کچھ دیر چپ رہی۔
وہ فارس کے بارے میں اپنے گھر والوں کا نقطہ نظر بدلنا چاہتی تھی۔ اور بارہا کوشش بھی کرچکی تھی۔
”امی……ماموں …… آپ لوگ جانتے ہیں کہ فارس نے ہمیشہ مجھے سپورٹ کیا ہے۔ میں کبھی تھیٹر پر کام نہ کرسکتی، کبھی اپنے شوق پورے نہ کرسکتی، اگر وہ میرا ساتھ نہ دیتا۔ اُس نے مجھ پر کسی قسم کی پابندی نہیں لگائی۔ اُس نے ہمیشہ مجھ پر بھروسہ کیا، اور میری خوشی اور مرضی کو اہمیت دی۔“
رانیہ نے سنجیدگی سے کہا۔
اس کے لئے فارس ایک پرفیکٹ انسان تھا۔ اس کے منہ سے فارس کی تعریفیں سن کر سب کو صدمہ ہوا۔
ماموں باوجود کوشش کے اُسے ٹوک نہ سکے۔
وہ ذرا رکی پھر اس نے ذرا جھجک کر نظریں جھکاتے ہوئے کہا۔
”اگر فارس کی یہی خواہش ہے تو ہم شادی کے بعد حویلی شفٹ ہوجائیں گے۔“
یہ بات کہنی آسان نہیں تھی مگر اس نے کہہ دی۔
امی اور ماموں کو اسی بات کا ڈر تھا۔
فارس کو تو وہ ٹال سکتے تھے مگر رانیہ تو حویلی کی مالک تھی، پھر بے وقوف بھی تھی۔ فارس کی اصلیت سے ناواقف اور انجان تھی۔
امی کو اس کی بات سن کر دھچکا لگا تھا۔ فارس اس کا برین واش کرچکا تھا۔ اب وہ لوگ چاہے اسے کتنا بھی سمجھاتے، دلیلیں دیتے، وہ ان کی بات نہ سمجھتی۔
وہ کچھ دیر خاموشی سے سوچنے لگیں۔ رانیہ کو اس مقام پر ٹوک دینا ضروری تھا۔
”عنایا ایسا نہیں چاہتی، اور تم اکیلی اس حویلی کی مالک نہیں ہو۔“
کچھ دیر بعد امی نے بارعب انداز میں کہا کونے میں چپ بیٹھی عنایا بری طرح چونک گئی۔ اس نے تو ایسی کسی خواہش کا اظہار ہی نہیں کیا تھا۔ امی نے یہ جملہ کہہ کر اسے آزمائش میں ڈال دیا۔
”عنایا! کیا تمہیں کوئی اعتراض ہے؟“
رانیہ نے اسے دیکھتے ہوئے بڑی امید سے پوچھا۔
عنایا شش و پنج میں پڑگئی اور سوالیہ نظروں سے امی اور ماموں کو دیکھنے لگی۔
کیا کہے کیا نا کہے۔ عجیب کشمکش تھی۔
ایک طرف بہن تھی تو دوسری طرف ماں اور ماموں اور پورا گھر تھا۔
”حویلی تم دونوں کی ہے اس لئے اس کا ہر فیصلہ تم دونوں کی مشاورت سے ہی ہوگا۔“
ماموں نے کہتے ہوئے آنکھوں ہی آنکھوں میں عنایا کو کوئی اشارہ کیا۔
اس اشارے میں ایک تنبیہ تھی، ایک نصیحت تھی۔
”بولو عنایا۔“
امی نے با رعب انداز میں کہا۔
یہ صرف ایک جملہ ہی نہیں بلکہ ایک حکم بھی تھا۔
ان کے چہرے پر ایک فیصلہ تحریر تھا۔ اور عنایا کو یہ حکم ماننا ہی تھا۔
وہ رانیہ کی طرح بے وقوف نہیں تھی۔
”ہاں …… میں ایسا نہیں چاہتی ہوں۔“
عنایا نے ذرا بلند آواز میں کہا۔ اس نے رانیہ کے رنگ بدلتے چہرے سے نظریں چرالیں۔
”ہم نے تو فارس بھائی سے نہیں کہا کہ وہ اپنا گھر ہمیں دے دیں۔ انہیں بھی ایسی فرمائش کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا۔ شادی کے بعد انہیں تمہیں اپنے گھر لے جانا چاہیے نا کہ ہماری حویلی میں شفٹ ہوجائیں۔ حویلی ہم نے کرائے پر دی ہوئی ہے۔ یہی ٹھیک ہے۔ وہ ہماری آمدنی کا ذریعہ ہے جس سے یہ گھر چلتا ہے اور ہم خوشحالی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ تم اپنے شوق پورے کررہی ہو امی کو بھی اخراجات کی فکر نہیں ہے۔ تم خود سوچو، ماموں ریٹائرڈ ہیں جو پنشن آتی ہے۔ وہ ثمن اور ٹیپو کی پڑھائی پر خرچ ہوجاتی ہے۔ امی ماموں پر بوجھ کیوں بنیں …… تم فارس کو پسند کرتی ہو،ہم سب تمہاری مرضی کی وجہ سے اس رشتے کے لئے راضی ہوگئے، اب فارس کو بھی چاہیے کہ تمہیں رخصت کرکے اپنے گھر لے کر جائے اور اپنی ذمہ داریاں اٹھائے۔“
عنایا نے بااعتماد انداز میں ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
امی اور ماموں نے اطمینان بھرا سانس لیا۔
رانیہ کچھ دیر خاموشی سے بیٹھی رہی پھر اُٹھ کر بنا کچھ کہے اپنے کمرے میں چلی گئی۔
اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ اس گھر میں فارس کا کوئی حمایتی نہیں ہے۔
گھر کے سکون میں دراڑ پڑی تھی اور اس کا ذمہ دار فارس تھا۔
٭……٭……٭