اور یہ پچیس سال بعد کا قصہ ہے۔ صدی کا تیسرا حصہ گزرنے کے بعد۔
پنجرے میںافتخار اور ریحانہ قید تھے۔ الگنی سے لٹکے پنجرے کے ساتھ بچھے تخت پر ابراہیم کسلمندی سے لیٹا تھا۔ امتحانات سے فراغت کے دن وہ بھرپور فرصت سے گزار رہا تھا۔ تبھی مریم نے باورچی خانے سے جھانکا۔
”طوطوں کو دانہ ڈال دیا۔” وہ ابراہیم سے پوچھ رہی تھی۔
”جی امی اور آپ انہیں ان کے نام سے کیوں نہیںپکارتیں۔ افتخار اور ریحانہ۔” ابراہیم ہنس کر کہہ رہا تھا۔ جواباً مریم نے گھور کر دیکھا، مگر وہ بھی اس کا بیٹا تھا۔ گھوریوں کو رتی برابر خاطر نہ لایا۔
شیریں کو پرندے پالنے کا شوق ہوا۔ عالمگیر سے فرمائش کرکے اس نے طوطوں کا جوڑا منگوا بھی لیا۔ انہی دنوں وہ ابراہیم سے کوئی شرط ہارے ہوئی تھی اور اس شرط کو برابر کرنے کے لیے ابراہیم نے طوطوں کے نام رکھنے کی فرمائش کی۔ شیریں خوش ہوگئی۔ جھٹ سے وعدہ کرلیا کہ اسے ابراہیم کے رکھے ناموں پر اعتراض نہ ہوگا اور وہ سوچ رہی تھی ابراہیم مٹھو، پنکو ، میرو جیسے خوبصورت نام رکھے گا مگر ابراہیم نے رکھے ۔
افتخار اور ریحانہ۔
ہائیں پرندوں کے بھی ایسے نام رکھے جاتے ہیں۔
”ہم نئی روایت ڈالیں گے۔” ابراہیم نے سنجیدگی سے کہا۔
”بھاڑمیں گئی روایت۔” شیریں ناراض ہوگئی مگر وہ ابراہیم ہی کیا جسے بہن کی ناراضی کی پروا ہو۔
اپنے بیٹا اور بیٹی کو یوں لڑتے جھگڑتے دیکھتی تو مریم کو ماضی کے وہ دن یاد آتے جب وہ اور حمیرا ایسے ہی لڑا کرتی تھیں۔
ہائے وقت کیسے تیزی سے گزرگیا۔ ایک نسل پیدا ہوکر جوان ہوگئی۔ وہ بوڑھے ہوگئے مگر پتا ہی نہ چلا۔
اندر کمرے میں رکھا موبائل فون بجنے لگا۔ ابراہیم سے کہنا فضول تھا۔ وہ کچھ ایسا سست طبیعت تھا کہ اس کے جانے تک کال مسڈ کال بن جاتی۔ چولہے کی آنچ دھیمی کرتی وہ کمرے میں آئی۔
سارہ کی کال تھی۔ دھنک رنگ چاروں اور بکھرنے لگے۔
”کیسی ہو سارہ۔”
”اتنے مہینوں بعد کیسے یاد آگئی۔”
”میں ٹھیک ہوں ۔ بچے بھی ٹھیک ہیں۔”
”اچھا بیٹے کی شادی کررہی ہو۔ بہت بہت مبارک ہو۔”
”جلال پور آنا۔” وہ سوچ میں پڑ گئی۔
”نہیں نہیں کوئی بہانہ نہیں بناتی مگر اتنی دور…”
”وعدہ نہیں کرتی ۔ کوشش کروں گی۔”
”سمجھونا ۔ اتنا لمبا سفر۔”
”اچھا آؤں گی انشاء اللہ۔”
ابھی اس نے فون ہی بند کیا تھا کہ ابراہیم کمرے میں آگیا۔
”کس سے باتیں کررہی تھیں۔” عورتوں کی طرح اسے ٹوہ کا بھی چسکا تھا۔
”تمہاری آنٹی میری بچپن کی سہیلی سارہ ۔” مریم نے کچن کی طرف رخ کیا۔ ابراہیم بھی پیچھے آگیا۔ کہے پر تو وہ پاؤں تک نہ ہلاتا ، ہاں البتہ خود سے چاہے تو سارا سارا دن کھڑا رہے۔
”بیٹے کو بیاہ رہی ہے۔ شرکت کی دعوت دے رہی ہے۔”
”جلال پور؟” ابراہیم نے تصدیق چاہی۔ ہانڈی میں چمچ ہلاتے ہوئے اس نے اثبات سرہلایا۔
”تو پھر چلتے ہیں نا۔ مجھے بھی کتنا شو ق ہے آپ کا پرانا شہر دیکھنے کا۔ آپ نے قصے بھی تو اتنے سنائے ہیں۔”
”جانے کا ہی تو مسئلہ ہے۔ تمہارے ابو ساتھ جائیں گے نہیں اور ان کو اکیلا چھوڑ کر میںنہیں جاسکتی۔”
”افوہ امی وہ کوئی چھوٹے بچے ہیں۔ آپ کی شیریں یہی ہوگی۔ وہ ابو کا خیال رکھے گی۔ تین چار دن کچھ نہیں ہوتا۔” شیریں نے نہیں جانا تھا۔ وہ ایف ایس سی کی طالبہ تھی اور پڑھائی کے معاملے میں کافی حساس تھی ۔ کالج سے ناغے نہیں کرتی تھی۔
”چلو دیکھتے ہیں تمہارے ابو آجائیں۔”
اور جب عالمگیر آئے اور معاملہ ان کے سامنے رکھا گیا تو انہو ں نے فوراً کہا۔
”ضرور جاؤ بیگم۔ یہی تو اکٹھے ہونے کے بہانے ہوتے ہیں۔ کتنے سال ہوگئے تمہیں وہاں گئے مل آؤ سب سے ۔ اس نکمے ابراہیم کو لیتی جاؤ۔ میری فکر نہ کرومیں اور میری بیٹی کچھ دن تمہارے بغیر آزادی کے دن گزاریں گے۔” دستر خوا ن پر بیٹھے باقی تینوں نفوس ہنسنے لگے۔ ایک مریم تھی جو ان کا چہرہ دیکھے جاتی۔
٭…٭…٭
جلال پور کی سرزمین پر پہلا قدم رکھتے ہی اسے عجیب احساس ہوا۔ یہ وہ شہر تھا جہاں اس نے آنکھ کھولی ، بچپن اور لڑکپن گزارا اور یہیں سے رخصت ہوکر پیا دیس سدھاری۔ اب اتنے سالوں بعد۔
ماں باپ حیات ہوتے تو شاید چکر لگتے رہتے۔ کوئی بھائی ہی ہوتا اس کے دم سے میکا آباد رہتامگر ایسا کچھ نہ تھا۔ اس نے یاد کرنے کی کوشش کی کہ وہ کتنے سال بعد یہاں آرہی ہے۔ شاید نو سال بعد۔ کیا خبردس سال ہی ہوچکے ہوں۔
”امی یہ بار بار خیالوں میں مت کھوئیں ۔ مجھ سے باتیں کریں۔” ابراہیم کہہ رہا تھا۔ مریم مسکراتے ہوئے بیٹے کے ساتھ چلنے لگی۔
”مجھے بیاہ کر جب تمہارے ابو اور دادی یہاں سے رخصت کراکے لے گئے تھے، تو ٹرین کا سارا سفر میں نے دلہن بن کر کیا ۔ یہ تمہارے ابو کی فرمائش تھی اور بھگتنا مجھے پڑی۔ سارا رستہ ٹرین میں لوگوں کی دلچسپی کا سامان بنی رہی۔ مائیں اپنے چھوٹے بچوں کو لے کر ہمارے کیبن میں آتیں اور میری طرف اشارے کرکرکے ان کا دل بہلاتیں۔” مریم کو وہ جھینپ بھری یادیں آنے لگیں۔ ابراہیم دل کھول کر ہنسا۔
حمیرا کو جب پتا چلا کہ وہ شادی میں شرکت کے لیے جلال پور آرہی ہے تو اس نے بڑی فرمائش کی کہ ادھر اس کے پا س گاؤں میں آکر قیام کرے، مگر وہ اپنی پرانی گلی کی چاہت کچھ ایسے دل میں دلی تھی کہ اس نے منع کردیا۔
”یہ بوہڑ… جب ہم بچے اس احاطے میں کھیلنے آتے تھے تو میں چاند کو دیکھ کر سوچتی تھی یہ ہمارے پیچھے پیچھے کیوں چلتا ہے۔ ” مریم کی آنکھیں نم ہونے لگیں۔
”اوہو امی۔ جذباتی ہونا سخت منع ہے۔ اچھا آپ وہ بتاتی تھیں کہ یہاں کوئی بیکری بھی تھی۔”
”ہاں وہ…” بوہڑ کے ایک سرے پر وہ بیکری اب بھی تھی۔
”اس بیکری کے نان خطائی بسکٹ ۔ کیا بتاؤں ایسے بسکٹ کہیں کھانے کونہ ملے۔”
مریم کی بات درمیان میں رہ گئی اور ابراہیم ”ایک منٹ آیا” کہتا بیکری کی طرف بڑھ گیا اور مریم ارے ارے ہی کرتی رہ گئی۔ بیٹے کے پیچھے وہ بھی بیکری تک آئی۔ کوئی جوان لڑکا کاؤنٹر پر بیٹھا تھا۔ یقینا کاروبار نسل در نسل منتقل ہوا ہوگا۔ اب وہ صرف بیکری نہ تھی۔
شیشوں کے پار تھال میں سجی مٹھائی بھی نظر آرہی تھی اور کیبن میں صابن شیمپو جیسی ضروریات زندگی کی چیزیں بھی۔
ابراہیم چند لمحے میں واپس آیا۔ ہاتھ میں نان خطائی بسکٹ لیے۔
”اس کی کیا ضرورت تھی آرام سے کھالیتے۔”
”لو میری امی کو ان کی پسند کی شے کوئی اور کھلاتا مجھے اچھا لگتا۔ اس لیے تو میں خود لے آیا۔” یہ جلد بازی ابراہیم کی طبیعت کا حصہ تھی۔ ایک بسکٹ نکال کر اس نے ماں کی طرف بڑھایا۔ مریم نے بسکٹ دانتوں سے کترا۔
”واہ وہی ذائقہ۔ بتاؤ ایسا ذائقہ کبھی کسی اور بسکٹ میں نصیب ہوا۔”
ابراہیم نے بسکٹ چکھا۔ ایسا کوئی لاجواب ذائقہ نہ تھا۔ ایسے کئی بسکٹ کراچی میں ڈبوں میں پیک ملتے تھے۔ مگر وہ ماں سے کہہ رہا تھا۔
”بالکل ! بے مثال ذائقہ ہے میں اس لڑکے سے ترکیب پوچھنے کی کوشش کروں گا اور پھر آپ کو کراچی میں بنا کر کھلاؤں گا۔” اسے بیکنگ کا بھی تھوڑا شوق تھا۔ کبھی موڈ میں ہوتا تو کیک ‘ بسکٹ ٹائپ چیزیں بنا کر کھلاتا۔باتیں کرتے کرتے ماں بیٹا اس بند گلی میں آگئے۔ جہاں مریم نے زندگی کے تیئس سال گزارے تھے۔
ایک گھر کی منڈیر سے اس نے خود کو جھانکتے پایا۔ وہ گھر جہاں اس نے بچپن اور لڑکپن گزارا تھا۔ اب جانے کون لوگ وہاں آباد تھے۔ کئی سال اس نے یہ گھر بیچنے سے احتراز کیا، مگر اتنے دور کی جائیداد نے کیا فائدہ دینا تھا۔ ضروریات زندگی نے مجبور کیا تو بیچ ہی دیا۔
ایک کزن کے گھر جو کبھی چچا کا گھر ہوا کرتا تھا۔ قیام کا ارادہ تھا ۔آنے سے قبل انہیں آگاہ بھی کر دیا تھا۔ وہ لوگ خوش دلی سے ملے۔ کھانا کھلایا اور آرام کے لیے کمرا میسر کیا۔
شام کو ان کے اٹھنے سے قبل حمیرا آئی اور ان لوگوں کو جگایا۔
”جانے تمہاری نیند پوری ہوئی بھی کہ نہیں، مگر میں نے سوچا کہ نیندیں تو بعد میں بھی پوری ہوسکتی ہیں۔ ملنا تو مقدروں سے ہوتا ہے۔” دونوں بہنیں ہنس دیں۔ وہ ہنسی جس میں اداسی گھلی تھی۔ بچپن اور لڑکپن میں بات بات پر خفا ہونے والی بہنیں اب ایک دوسرے کو ملنے کر ترستی تھیں۔ کیا قسمت کے کھیل تھے۔
”بیٹا تمہاری خالہ۔ تین چار سال پہلے جب عمرے کے لیے جارہے تھے تب ہمارے گھر آئی تھیں۔ تمہاری خالہ مجھ سے اڑھائی سال بڑی ہیں لیکن دیکھنے میں… ”
”اڑھائی سال نہیں دو سال سات ماہ۔” حمیرا نے بات کاٹ کر تصحیح کرنا ضروری سمجھا۔ مریم بہن کا چہرہ تکنے لگی اور پھر منہ سے ایسی ہنسی پھوٹی کہ دونوں بہنیں کتنی دیر ہنستی رہیں اور ابراہیم ماں کو یوں ہنستا دیکھ کر سرشارہوتا رہا۔
رات کو شادی کا فنکشن تھااور جب وہ لوگ وہاں شرکت کے لیے گئے تو سارہ جیسے نہال ہوگئی۔
”مریم تم نے شادی میں آکربچپن میں کیے سارے احسان چکا دیے۔” سارہ نہیں بدلی تھی بولنے کے فن میں ویسے ہی طاق تھی۔ گوکہ شادی والا گھر تھا، مگر سارہ کتنی ہی بار مریم کے ساتھ آبیٹھی۔
”کچھ خاص ہے تمہارے لیے۔” کھانے سے فارغ ہوچکے تو سارہ اسے الگ کمرے میںلے گئی۔ وہاں رومال سے ڈھکی ٹرے میں کچھ رکھا تھا۔
”سارہ میں نے سیر ہوکر کھا لیاہے۔”
”دیکھو تو سہی کیا منگوایا ہے۔” سارہ نے اصرار کیا تو مریم نے رومال اٹھاکر دیکھا۔پھلیوں سے بھرے ہوئے پھولے پھولے گول گپے تھے۔ مریم خوشی سے نہال ہوگئی۔
”ہائے سارہ تمہیں یاد تھا ۔ سچ بتاؤں میں سوچ کر آئی تھی گول گپے کھاکر آؤں گی۔ کیا بے مثال ذائقہ ہے ۔ ایسے گول گپے کراچی میں کھانے کو کبھی نہ ملے۔”
گو کہ ڈاکٹر نے مریم کو ترش چیزیں کھانے سے منع کیا تھا، مگر وہ خود کو روک نہ پائی۔ پیٹ بھی بھرا ہوا تھا، مگر اس نے پھر بھی چار گول گپے کھا لیے۔
شادی میں بھی شرکت کرلی ۔ اب اگلے دو تین دن رشتہ داروں سے ملنا ملانا ہوا اور ایسے ہی رابعہ کے گھر رابعہ کی فرمائش پر وہ چائے بنانے کے لیے اس کے کچن گئی کہ… کہ بہن کو پکارتے جنا ب بلال مامون صاحب کچن میں چلے آئے اور مریم کو سامنے دیکھ کر لمحہ بھر کو ساکت ہوگئے۔
”وہ میں سمجھا رابعہ ہے، کیسی ہو؟” وقت رکنے لگاتھا مگر یہ پرانی مریم نہ تھی۔ اس نے وقت کو رکنے کی اجازت نہ دی۔
”ٹھیک ہوں۔” چائے کو جوش آگیا تو مریم چائے کپوں میں انڈیلنے لگی۔
”زندگی کیسی گزر رہی ہے۔” وہ مریم کو تکے جارہا تھا۔
”رابعہ اندر کمرے میں ہوگی۔”یہ مریم کا جواب تھا۔ ٹرے میں کپ لیے وہ جانے لگی۔
”چند گھڑی بات سن لو ۔ کچھ پرانی باتیں، کچھ یادیں…” بلال جیسے یہ وقت قید کرلینا چاہتا تھا۔
”بلال صاحب! چھت پر جانے والی لڑکیوں کی باتیں یاد کرنے والی نہیں ہوتیں۔ مہربانی کریں اور میرا راستا چھوڑ دیں۔” اس کے لہجے کی قطعیت دیکھ کر بلال اپنے قدم نہ جما پایا۔ وہ آگے بڑھ گئی، وقت کی طرح۔
کمرے میں بیٹھے ابراہیم کو ماں تھوڑی بجھی بجھی سی لگنے لگی، حالانکہ کچھ دیر پہلے تو بالکل ہشاش بشاش تھی۔
”امی آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟” رابعہ کے گھر سے واپسی پر ابراہیم پوچھ رہا تھا۔
”ہاں بالکل۔”
”مجھے تو نہیں لگ رہی۔” جواباً مریم کچھ دیر خاموش رہی۔
”کسی سے کوئی تعلق بناؤ تو اسے نبھاؤ کہ نبھانا اس قدر بھی مشکل نہیں۔”
”کیا کہا؟” ابراہیم کے پلے نہ پڑا۔ مریم نے طویل سانس بھری۔
”کچھ نہیں! بیکری سے کچھ نان خطائی بسکٹ لے آنا۔ کراچی ساتھ لے کے چلیں گے۔”
”جی امی!” اپنی ماں کو گم صم دیکھ کر اس نے اتنا کہنے پر ہی اکتفا کیا جبکہ سوچوں میں گم مریم ماضی کی کچھ تلخ اور کچھ سنہری یادوں میں اتر گئی۔
٭…٭…٭