”اچھی بات ہے مریم ۔ تم کماؤ گی گھر میں کچھ پیسے تو آئیں گے۔ کم از کم امی کی دواؤں کے ناغے تو نہ ہوں گے۔” اپنے ساتھ کی گئی ناانصافیوں کو بھول کر ا ب وہ فائدوں پر غور کررہی تھی۔ دوپہر کا ایک بجا تو بوہڑ سے پار والی مسجد کے اسپیکر پر جمعے کی نماز کی پہلی اذان دی جانے لگی۔
”واہ کیا مبارک دن ہے۔ اسپیکر بھی ٹھیک ہوگیا۔ آج تو تین ہفتوں بعد ہم جمعہ کا خطبہ سن سکیں گے۔ کیسے خوش الحان مولوی صاحب ہیں۔” مریم خوش ہونے لگی۔
اور یہ سوا دو بجے کے قریب کا وقت تھاجب دروازے پر دستک ہوئی اور جمعے کے روز کا معمول تھا ۔ بلال نماز کے بعد چاولوں کی پلیٹ کے ساتھ ان کے گھر آتا ۔ سر پر ٹوپی رکھے ، ہاتھ میں چاولوں کی پلیٹ کہ ان کے گھر پر جمعہ کو چاول بنتے۔ خوش کن خیالات کے ساتھ مریم نے دروازہ کھولا۔ یہ بھی نہ پوچھا کہ کون ۔
سر پر ٹوپی لیے، ہاتھ میں چاولوں کی پلیٹ لیے مگر وہ بلال نہیں سجاد تھا۔ سلطان چچا کا بیٹا۔
”مجھے دیکھ کر تو تم مجسمہ ہوگئی۔کیا میں…” سجاد کا لہجہ، اس کے انداز مریم کو کچھ پسند نہ تھا اور باتیں بھی تو اس کی ذومعنی ہوتیں۔
”آئیے سجاد بھائی!” مریم نے پلیٹ ہاتھ بڑھا کرلے لی اور سجاد سامنے ہال کمرے میں جاکر چچی کو سلام کرنے کے بجائے مریم کے پیچھے کچن میں چلا آیا۔
”یہ تم مجھے بھائی نہ کہا کرو۔” اپنی پلیٹوں میں چاول نکالتی مریم نے صبر سے سجاد کے الفاظ سنے۔
”بھائی ہیں تو بھائی ہی کہوں گی نا۔ رشتے میں اور نہ عمر میں آپ بڑے نہیں ہیں کہ انکل کہوں۔ امی ! سلطان چچا کی طرف سے سجاد بھائی چاول لے کر آئے ہیں۔ ” آخری فقرہ مریم نے دروازے کی طرف منہ کرکے اونچی آواز میں کہا تھا۔
”آئیں ، امی کو سلام کرلیں۔” مریم باہر کی طرف جانے لگی اور سجاد معنی خیز انداز میں اسے دیکھ کر مسکرایا۔
سجاد لاکھ ناپسند سہی بلکہ اسے سلطان چچا کے تمام گھر والے کچھ خاص پسند نہ تھے۔ یونہی بناوٹی سے تھے مگر حمیرا کے ساتھ مل کر اس نے چاول خوب مزے لے کر کھائے۔ کھانے کے بعد دونوں بہنیں چہل قدمی کو چھت پر چلی آئیں اور بلقیس سوچ کر رہ گئی۔
”سیڑھیوں کے دروازے کو تالا لگاتی ہوں۔ یہ کیا بات ہوئی لڑکیاں گھڑی گھڑی چھت کا چکر لگائیں۔ گھر میں مرد بھی تو نہیں۔ یا اللہ ان لڑکیوں کے لیے سبب بنا کوئی اچھے رشتے بھیج۔ خاندان کے کتنے ہی لڑکے میری بچیوں کے جوڑ کے ہیں۔” چھت پر آکر مریم تو چکر لگانے لگی جبکہ حمیرا نے یونہی منڈیر سے جھانکا۔
”آپا چھت سے مت جھانکو۔ امی کو پسند نہیں۔ کسی چچا یا ماموں نے دیکھا تو وہ الگ ناراض ہوں گے۔” حمیرا نے لفظ آپا کا بھی برا نہ منایا۔
”اے مریم دیکھ ہماری گلی میں کون آرہا ہے۔” حمیرا نے مریم کو متوجہ کرنا چاہا۔
”گلی ہی ہے۔ چاہے سارے رشتہ داروں کے گھر ہیں، مگر کوئی بھی آسکتا ہے۔” کہتے ہوئے مریم نے بھی جھانکا۔
ایک خوش شکل نوجوان، ڈاڑھی جس کے چہرے کی زینت تھی۔ ہاتھ میں بکس لیے ایک برقعہ پوش خاتون کے ساتھ چلا آرہا تھا۔
”ارے یہ تو اپنا عالمگیر ہے اور ساتھ نسیم خالہ کراچی والی۔” مریم انہیں دیکھ کر چہک اٹھی۔ بے خیالی میں عالمگیر کو ‘اپنا’ کہنے والی ہماری مریم کہاں جانتی تھی کہ وہی مستقبل کا اپنا ہے۔
٭…٭…٭
جب معلم اور نسیم کی شادی ہوئی تھی۔ متحدہ ہندوستان کا زمانہ تھا۔ تقسیم کی صدائیں تو چند سالوں سے بلند تھیں اور شادی کے چھے ماہ بعد تقسیم ہو بھی گئی۔ خطے یونہی تقسیم نہیں ہوتے۔ جائز ناجائز خون کی ندیاں بہانی پڑتی ہیں، مگر چاہے جس قسم کا فساد ہو عموماً گاؤں محفوظ ہی رہتے ہیں اور شہر جلال پور بھی کون سا ایسا شہر تھا۔ بہت سے دیہات میں گھرا دور دراز سا تجارتی مرکز۔ باہر کے لوگ تو گاؤں ہی کہتے۔ تو بس تقسیم کے وقت حالات کچھ ایسے خراب نہ ہوئے۔ یوں بھی ساری آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی۔ ریڈیو سے دردناک خبریں سن کر لوگ دبک کر گھر ہی میں بیٹھے رہے۔آس پاس کے دیہات میں جہاں ہندو آباد تھے۔ کچھ تکلیف دہ کہانیاں رقم ہوئیں۔ ہندوستان کے مختلف دیہات سے بھی مسلمان آکر یہاں آباد ہوتے گئے اور یہاں کر مہاجر کہلائے۔(آج بھی ان کی نسلیں مہاجر کہلاتی ہیں۔)
گزرتے سالوں میں آزادی کاشورش بھی تھم گیا اور معلم کراچی جاآباد ہوئے۔ جلال پور کی زندگی انہیں پسند نہ تھی۔ نہ مکمل طور پر شہری اور نہ ہی مکمل طور پر دیہاتی۔ کچھ قسمت نے بھی ساتھ نہ دیا۔ جتنے کاروبار کیے سب نقصان میں گئے اور نقصان کی شرح کچھ ایسی ہوتی کہ کاروبار ہی بند کرنا پڑتا۔ نتیجتاً انہوں نے قسمت آزمائی کو روشنیوں کے شہر کراچی کی طرف رخ کیا اور اس شہر کی روشنیاں انہیں اس قدر راس آئیں کہ یہیں کہ ہوکر رہ گئے۔ بیوی کو بھی ادھر بلالیا۔ بچے بھی ادھر پلے بڑھے، یہیں تعلیم حاصل کی اور جوان ہوئے۔
والدین حیات تھے تو جلال پور کے چکر بھی باقاعدگی سے لگتے۔ وہ نہ رہے تو پھر آنا مشکل سے ناممکن ہوگیا۔ کاروباری بندشیں کہاں چھٹیوں کی اجازت دیتی ہیںاورکئی سال بعد جلال پور میں موجود اپنا گھر بھی فروخت کردیا۔ آخر اتنی دور دراز کی جائداد جو کسی اور کے رحم و کرم پر ہوتی کا، انہوں نے کیا کرنا تھا۔
بس اب پھر نسیم اور معلم کے کئی کئی سالوں بعد یہاں کے چکر لگتے اور بہن بھائیوں سے میل ملاقات ہوتی۔اس بار نسیم آئیں، تو مامون کے گھر قیام کیا۔ یوں تو ان کے دل میں باقی بہن بھائیوں کی نسبت بلقیس کے لیے زیادہ محبت محسوس کرتیں اور شاید اسی کے گھر ٹھہرتیں، مگر جس مقصد کے لیے آئی تھیں وہ مانع آگیا۔
اس لیے بھائی کے گھر قیام کا انتخاب ٹھہرا۔
”لو آپا کیسے بچے پل کے پل میں بڑے ہوگئے۔ یہ عالمگیر کیسا گھبرو جوان ہے۔ ماشاء اللہ نظر ہی نہیں ٹھہرتی۔” عالمگیر باہر صحن میں بچھی چارپائی پر بیٹھا اس پرانے اخبار کے ایڈیٹوریل کا صفحہ پڑھ رہاتھا جسے اس گھر کے مکین دسیوں بار پڑھ چکے تھے۔
”کاش کہ اللہ مجھے بھی بیٹا دے دیتا، تو آج میں خود کو یوں اکیلا محسوس نہ کرتی۔” بلقیس نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور ساتھ بیٹھی حمیرا اس بات پر دل ہی دل میں خفا ہوگئی۔ ایسی باتیں کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔
”یوں تو میری دونوں بیٹیاں ہی ماشاء اللہ سمجھدار، سلیقہ مند اور جس طرح مریم نے گھر سنبھالا ہوا ہے۔ زیادہ پریشانی نہیں ہوتی۔” (گھر سنبھالتے وقت صرف مریم کا نام) حمیرا جل بھن کر رہ گئی۔ تبھی مریم ہاتھ میں ٹرے لیے آئی اور سب کو چائے پیش کرنے لگی۔ عالمگیر کو وہ باہر ہی کپ دے آئی تھی۔
”سچ مریم کے ہاتھ کا تو ذائقہ بہت اچھا ہے۔ کل کی چائے کا سواد ابھی تک محسوس کررہی ہوں اور یہ کپ۔ جیتی رہو۔” خالہ مریم کے ساتھ کچھ زیادہ ہی الفت دکھا رہی تھیں یا اسے ہی غلط فہمی ہورہی تھی۔
”لو میرا بیٹا بھی نہیں جو عالمگیر کو کمپنی دے۔ مریم ! عالمگیر کو اندر ہی بلالو۔” چہرے پر شرارت بھری مسکراہٹ لیے ۔ مریم اٹھنے ہی لگی تھی کہ نسیم نے روک لیا۔
”بچیو تم ہی باہرکھلی فضا میں جابیٹھو اور عالمگیر سے حال احوال بٹاؤ۔” حمیرا ایک بار پھر ٹھٹکی، مگر کچھ کہے بنااٹھ کھڑی ہوئی۔
”میں نے عالمگیر کی چائے میں چینی کی جگہ نمک گھول دیا ہے اور اسے کہا کہ ہمارے ہاں تو نمکین چائے ہی بنتی ہے۔” کمرے کے دروازے سے نکلتے ہوئے مریم نے حمیرا کے کان میں سرگوشی کی اور حمیرا اسے گھور کے رہ گئی۔
”ہاں تو عالمگیر بھائی چائے کا سواد آیا کہ نہیں۔” سامنے پڑی چارپائی پر بیٹھتے ہوئے مریم لمحے بھر کو ٹھٹکی تو سہی۔ عالمگیر اپنا چائے کا کپ ختم کرچکا تھا۔
”جی بے مثال چائے تھی۔ کیا ایک کپ اور مل سکتا ہے۔” عالمگیر متانت سے کہہ رہا تھا اور حمیرا کو عالمگیر کی متانت بھی عجب رنگ لیے ہوئے محسوس ہوئی۔ جانے یہ اس کا وہم تھا کہ کوئی بات تھی۔ چلو سبھی کہتے ہیں مریم زیادہ سمجھدار ہے ان کے جانے کے بعد پوچھ لوں گی۔
مریم تھوڑا بوکھلائی۔
”جی ضرور ۔” اور عالمگیر کے ہاتھ سے کپ لیتی ہوئی کچن میں چلی گئی۔
”اور سنائیں کراچی میں کیا مصروفیت ہوتی ہے آپ کی۔” حمیرا بات برائے بات کرنے لگی اور عالمگیر اپنی جاب کی نوعیت اور مصروفیت بتانے لگا۔
اندر نسیم بلقیس سے کہہ رہی تھی۔
”بلقیس میری بہن زمینی فاصلے نے مجھے خون کے رشتوں سے دور کردیا اور ان فاصلوں کو کم کرنے کی ایک نیت سے ہی یہاں آئی ہوں۔ میرا عالمگیر…” نسیم نے لمحے بھر کو توقف کیا اور بلقیس کو شبہ ہونے لگا کہ اس کی بڑی بہن کیا کہنے والی ہے۔
”میںاپنے عالمگیر کو اس لیے لائی ہوں۔ بہن بھائیوں میں سے جس کی بیٹی اسے پسند آئے میں اسی بھائی بہن کے سامنے جھولی پھیلاؤں اور قسمت دیکھومجھے اور عالمگیر دونوں کو ہی تمہاری مریم اچھی لگی ہے۔ تو میری بہن میں دامن پھیلاتی ہوں۔” نسیم نے سچ میں اپنا دوپٹا پھیلا لیا۔
”اپنی مریم مجھے دے دو۔” بلقیس کی کیفیت لمحے بھر کو بدلی اس نے خود پر قابو پالیا۔
باہر آنگن میں مریم عالمگیر کو چائے کا ایک کپ اور پیش کررہی تھی۔ مسکراتی آنکھوں کے ساتھ عالمگیر نے کپ ہونٹوں سے لگایا اور گھونٹ بھرنے کے بعد کہنے لگا۔
”آپ اس بار شاید بھول گئیں۔ نمک کی جگہ چینی گھول کر لے آئیں۔”
”شائد!” مریم نے کوشش تو کی کہ ڈھٹائی کا مظاہرہ کرپائے مگر کامیاب نہ ہوئی۔
٭…٭…٭
یوں ہی اکیلے بیٹھے بیٹھے دل اکتا گیا تو سوچا کیوں نہ رشتہ داروں کے گھر کا ہی چکر لگالوں۔ دوپٹا ٹھیک کرکے وہ بلقیس کے پاس آئی۔
”امی مامون ماموں کے گھر کا چکر لگا آتی ہوں۔” بلقیس کا دل چاہا روک لے اور اس نے روکابھی۔
”کیا ضرورت ہے جانے کی؟ گھر کے کام کرو۔”
”ضرورت تو ہے امی۔ کب سے رابعہ سے بھی نہیں ملی اور کون سے گھر کے کام کروں۔ کچھ کرنے کو تو ہے نہیں۔ گھر کے کا م تو ایک طرف سکول سے بچوں کی چیک کرنے والی کاپیاں لائی تھی وہ بھی ختم ہوگئیں۔ ا ب اکیلے بیٹھے بیٹھے دل اکتا رہا ہے۔” حسب عادت مریم نے لمبا جواب دیا۔
”چلو حمیرا کولیتی جاؤ۔” بلقیس طویل سانس بھر کر رہ گئی۔ شاید انہیں عالمگیر کے لیے ہاں کردینی چاہیے۔ جب تک یہ تتلیاں اس آنگن میں گھومتی رہیں گی۔ وہ یونہی بلاوجہ پریشان رہیں گی، مگر اپنے دل کے ٹکڑے کو کیسے اتنی دور بھیجیں۔ تسبیح کے دانے گرتے رہے اور وہ اپنے خیالوں میں الجھتی رہیں۔
حمیرا اپنی سوئی دھاگے میں الجھی بیٹھی تھی۔ اس کے کپڑوں کی واپسی کے وعدے کا دن زیادہ دور نہ تھا، مگر کام اس حساب سے زیادہ رہتا تھا۔ اس لیے وہ اب معمول سے زیادہ وقت ان دھاگوں کو لیے بیٹھی رہتی۔ اس وقت بھی اس کا جانے کا دل نہ تھا، مگرمریم ہی اور ہو جو اپنی بات نہ منوائے۔ چنانچہ برے منہ بناتی حمیرا نے سوئی دھاگا اور فریم طاق میں رکھا اور دوپٹا پھیلانے لگی۔
”ماشاء اللہ بڑی پیاری بچی ہے مریم۔ پر مجھے تو بلقیس نے زیادہ امید نہیں دلوائی۔” نسیم زینت سے کہہ رہی تھیں۔
”اگر فرض کرو ۔ بلقیس نہیں بھی مانتی تو تم خاندان کی کوئی اور لڑکی پسند کرلینا۔” دل میں تو یہی خواہش ابھری کہ ان کی رابعہ کو ہی پسند کرلیں، مگر اس کا کٹا ہوا ہونٹ۔ گوکہ سرجری سے سلوایا گیا تھا’ مگر پھر بھی کس قدر بدنما لگتا ۔
”بس بھابی دعا کریں کہ میرے دل کی مراد بر آئے۔” تبھی دروازے پر کھٹکا ہوا۔ دروازے کا کواڑ وا کرتی مریم اندر آرہی تھی۔ سر پر دوپٹا جمائے ‘ دوپٹے کے ایک مرکزی کونے سے آدھا چہرہ چھپائے۔ تبھی حمیرا نے جانے اس سے کیا کہا کہ وہ ہنس دی۔
کیسی خوبصورت ہنسی تھی۔ نسیم کو لگا جیسے کراچی میں اس کے گھر کے درودیوار اسی ہنسی کے متقاضی ہیں اور دوسرے کمرے میں دروازے کے سامنے بچھی چارپائی پر جہاں سے سامنے صحن کا منظر بخوبی نظر آتا، پر بلال کے ساتھ بیٹھے عالمگیر کے کانوں سے بھی مریم کے ہنسنے کی آواز ٹکرائی تھی۔ اور وہ جو سوچ رہا تھا آج بلال کا رویہ کیوں پھیکا پھیکا سا لگتا ہے۔ یکدم ہی مسکرا اٹھا۔
اور بلال نے دیکھا ۔ گھنی ڈاڑھی میں انگلیاں پھیرتے مسکراتا عالمگیر۔ لمحے میں اس کا دل چاہا کہ اس کے جبڑوں پر مکا مار دے۔
”آؤ مریم آؤ ابھی تمہارا ہی تذکرہ ہورہا تھا۔” باہر برآمدے میں تخت پر بیٹھی نسیم کہہ رہی تھی اور مریم شرمندہ ہونے لگی۔ اس تپاک کی ‘وجہ’ سے وہ واقف ہوچکی تھی مگر خالہ کو واپسی میں وہ ایسے جوش اور تپاک کا مظاہرہ نہیں کرسکتی تھی۔ ‘وجہ’ ہی ایسی تھی۔
مریم اور حمیرا کی آوازیں سن کر رابعہ بھی دوسرے کمرے سے نکل آئی۔ اور اس سے قبل کہ لڑکیوں کا ٹولہ اپنی گپ شپ میں مشغول ہوتا زینت نے رابعہ کو متوجہ کیا۔
”جاؤ رابعہ سب کے لیے چائے بنا لاؤ۔” رابعہ اٹھ کر جانے لگی۔
”رابعہ نہیں مریم ۔ سچ بولوں ایسی ذائقہ دار چائے میں نے کہیں نہیں پی۔ کیا ملاتی ہو چائے میں۔” جواباً مریم چہرے پر ایک پھیکی مسکراہٹ ہی سجاسکی اور کچن کی طرف چل دی۔
کچن کی طرف جاتے جاتے وہ اچانک مڑی جیسے کسی خیال نے قدم روکے ہوں اور پھر اس کمرے کی طرف رخ کیا جہاں لڑکے بیٹھے تھے۔
”بلال وہ بوہڑ کے پاس والی بیکری سے نان خطائی بسکٹ تو لے آؤ ۔ خالہ اور عالمگیر بھائی کو اپنے شہر کے مشہور بسکٹ تو کھلائیں۔ وہاں کراچی جاکر اور کچھ نہ تو ان بسکٹوں کے بہانے رشتہ داروں کو یاد کریں۔” بلال کا گھر اتنا بڑا نہ تھا۔ دیوار سے دیوار ملی، چھوٹا سا برآمدہ اور برآمدے کے سامنے صحن اور مریم نے کچھ ایسی اونچی آواز میں کہا کہ برآمدے میں بیٹھے لوگوں نے بھی اس کی آواز سنی۔
”میں بھی چلتا ہوں۔” بلال بسکٹ لینے کے لیے جانے لگا تو عالمگیر بھی اٹھ کھڑا ہوا۔
بیکری اتنی دور تو نہ تھی۔ جب تک چائے بنی بسکٹ بھی آگئے۔ بلال بسکٹ پکڑانے کے لیے کچن کی طرف گیا۔
” بسکٹ کے بہانے وہ تمہیں یاد کرے مریم ۔ تم کیسی باتیں کرنے لگی ہو۔” بلال نے جانے اس کا کہا کون سا جملہ اپنی مرضی کے معانی میں کہا تھا۔ کپوں میں چائے انڈیلتی مریم لمحے بھر کو رک گئی۔
”سنا ہے بڑے شہر کی باسی بننے جارہی ہو۔ تمہیں تو یوں بھی سمندر دیکھنے کا شوق ہے۔ یہ شوق بھی مسلسل پورا ہوتا رہے گا۔” بلال نے جیسے انگارے چبا رکھے تھے اور مریم نے دھیان سے اس کے الفاظ سنے۔ چائے وہ کپوںمیں ڈال چکی اور اب بسکٹ پلیٹ میں سجانے لگی تھی۔ پھولے پھولے سنہری خطائی بسکٹ۔
”بلال تمہیں یاد ہے۔ جب ہم چھوٹے چھوٹے تھے اور بیکری والے انکل نے نئے نئے یہ بسکٹ تیار کرنے شروع کیے تھے۔” اس بے جوڑ بات پر بلال نے اسے خفگی سے دیکھا۔ کچھ کہنے کے لیے لب وا کیے مگر پھر کچھ سوچ کررک گیا اور دھیرے سے اثبات میں سرہلایا۔
”اور ایک شام تم اور میں چھپ کر بیکری گئے تھے۔ سائیکل پر میں پیچھے بیٹھی تھی اور کتنی بار ہم گرتے گرتے بچے تھے۔ تم سائیکل اچھی نہیں چلا سکتے تھے۔” مریم مسکرانے لگی۔
”تب میں نو سال کا تھا۔ اس عمر میں دو پہیوں والی سائیکل اکثر بچے صحیح طرح نہیں چلاسکتے۔” مریم ہنوز مسکراتی رہی۔
”تب میں نے تم سے پوچھا تھا کہ یہ چاند ہماری سائیکل کے پیچھے پیچھے کیوں چلتا ہے اور تم نے کہا تھا کہ یہ پاگل ہمارا پیچھا کرتاہے اور امیوں کو جاکر ہماری شکایت لگائے گا۔” اب کی بار مریم کچھ ایسے ہنسی کہ آواز برآمدے تک گئی۔ زینت سے کچھ کہتی نسیم لمحے بھر کو رکیں اور رخ مڑ کر کچن کی طرف دیکھا۔
” تو بات کچھ ایسی ہے جب ہم بوڑھے ہوجائیںگے تب بھی مجھے سائیکل پر بٹھا کر بیکری لے جانا۔ میں تب بھی پوچھوں گی یہ چاند ہماری سائیکل کے پیچھے پیچھے کیوں آتا ہے۔ تب بھی کوئی اچھا سا جواب دینا۔ ابھی سے جواب سوچنا شروع کردو۔” مریم نے ٹرے اٹھائی اور باہر چل دی۔ مسرور بھرے ستارے بلال کے گرد ہالہ بنانے لگے۔ طبیعت پر چھائی بیزاری ڈھلنے لگی۔
تخت پر بیٹھی نسیم نے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے گہری نظروں سے مریم کو دیکھا۔ یوں کچن میں بلال نے زیادہ وقت کیوں لگایا تھا؟
٭…٭…٭