”وہ تمہیں کہاں ملا؟”ریحان کے لہجے میں حیرانی تھی۔
”میں بس سٹاپ پر کھڑی رکشے کا انتظار کررہی تھی، اس نے مجھے پہچان لیا۔تمہیں اندازہ نہیں کہ میں کتنی خوش تھی اس وقت۔”کنول نے بہت شوق سے اسے تفصیل سنائی تو ریحان نے زوردار قہقہہ لگایا۔
”ہنس کیوں رہے ہو؟اس میں ہنسنے والی بات کون سی ہے؟”کنول نے ناراضی سے پوچھا۔
”یار تم بھی کتنی بے وقوف ہو، لوگ ان سیلبریٹز کو پسند کرتے ہیں جو BMW سے اُتریں۔ رکشے والی سیلیبرٹی کو کون پسند کرتاہے۔”ریحان نے ہنسی روک کر جواب دیا۔
”کیا مطلب ؟” کنول نے غصے سے پوچھا۔
”مطلب تم بہت بھولی ہواور ایسے سڑک چھاپ فینز پر خوش ہورہی ہو۔”ریحان نے جواب دیا۔
”تم بکواس مت کرو،وہ میرا بڑا فین ہے اس نے مجھے پہچان لیا،جب ہی تو میرے پاس آیا تھا۔”کنول نے فوراً کہا تو ریحان نے اس کے غصے کو دیکھ کر ہار ما ننے میں عافیت جانی اور بولا ۔
” اچھا چلو تم کہتی ہو تو تمہاری بات مان لیتے ہیں، ناراض کیوں ہوتی ہومگر یہ سب منہ دیکھے کی باتیں ہیں۔ تم مل گئیں اس نے کہہ دیا۔” کنول نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔
”چائے پیو گی؟ بنانے جارہا ہوں۔ ”ریحان نے اٹھتے ہوئے پوچھا۔
”پہلے میرا خون جلاتے ہو اور پھر چائے کا پوچھتے ہو،جاؤ نہیں پینی ۔”کنول نے ناراضی سے کہا تو وہ دوبارہ ہنسنے لگا اور بولا۔
” غصے میں بہت اچھی لگتی ہو۔”
٭…٭…٭
کنول فیس بک پر اپنا پیج چیک کر رہی تھی۔اسی وقت اس کی نظر ایک پوسٹ پر پڑی۔اس نوجوان نے اپنی اور کنول کی تصویر فیس بک پر شیئر کر دی تھی اور ساتھ ہی لکھا تھا:
I am very happy with my diva ۔کنول نے اس کے نیچے کے لکھے کمنٹس بھی پڑھے۔ ایک کمنٹ کے جواب میں لڑکے نے لکھا تھا کہ یار بالکل سڑک چھاپ حسینہ تھی میں تو بس اپنی ٹھرک پوری کررہا تھا،فیس بک کا پیٹ بھی بھرنا ہوتا ہے۔ورنہ ایسوں کو کون پوچھے۔ وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر سب پڑھ رہی تھی کہ ریحان بھی اس کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ اس کی شکل پر بارہ بجتے دیکھ کر اس نے لیپ ٹاپ کا رخ اپنی طرف کرلیا۔
”ریحان! کتنی منافقت ہے نا؟”کنول نے دکھی لہجے میں کہا۔
”یہ پاکستان ہے،یہاں ایسی ہی منافقت ہی چلتی ہے۔”ریحان نے بے دردی سے کہا۔
” لیکن میں منافق نہیں ہوں۔”کنول نے بے بسی سے کہا۔
”تمہیں یہاں زندہ رہنا ہے تو منافق بننا پڑے گا۔”ریحان نے اسے سمجھایا۔
”میں اسی لیے ناکام ہوں شاید۔”کنول نے کہا۔
”یہی تو سمجھا رہا ہوں۔یہاں اچھا بننے سے کچھ حاصل نہیں،منافق بن جاؤسب کی طرح۔”ریحان نے گویا اسے مشورہ دیا پھر بولا۔”جو جیسا کرے اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرو۔ تم سب کو اچھا اور اپنی طرح سمجھتی ہو،غلط سمجھتی ہو۔”
” میں منافق نہیں کہ سامنے کچھ اور پیٹھ پیچھے کچھ کہوں۔ریحان میں جیسی ہوں ویسی نظر آتی ہوں۔” کنول کا لہجے میں دکھ تھا۔
”یہاں زندہ رہنا ہے تو تمہیں ایسا ہونا پڑے گا، دیکھو اسے دیکھو اتنی سی عمر میں کتنا منافق ہے یہ۔”ریحان نے تصویر میں موجود لڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”اور تم؟” کنول نے سوال کیا۔
”شاید میں بھی۔” ریحان نے ہار مانتے ہوئے جواب دیا۔
٭…٭…٭
عابد اور رانی ایک دن مناسب موقع دیکھ کر گاؤں سے نکلے اور شہر جا پہنچے۔وہاں انہوں نے خوب آوارہ گردی کی۔پہلے اسٹیج ڈراما دیکھا پھرایک مہنگے ہوٹل سے کھانا کھایا۔ اس کے بعد عابد نے اسے مختلف چھوٹی موٹی چیزیں دلائیں۔ گاؤں واپسی کے لیے بس میں بیٹھے تو رانی کی آنکھوں میں عابد کے لیے ممنویت ہی ممنویت تھی۔
٭…٭…٭
رحیم نے گھر چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔وہ اپنا سامان سمیٹ رہا تھا اور اس کی ماں منہ پر دوپٹا ڈالے رو رہی تھی کہ منی بھی اس کے پاس آکر بیٹھ گئی۔
”تو تیار ہو جا،میں گاڑی لے کر آتا ہوں۔”رحیم نے اسما سے کہا اور گھر سے نکل گیا۔
”اللہ تیرے آگے بھی یہ سب لائے اسما۔” ماں نے اسما کو بددعا دی۔
”اماں مجھے کوسنے دینے کا کوئی فائدہ نہیں،یہ تیرے بیٹے کا فیصلہ ہے۔”اسما نے بے پروائی سے کندھے اچکائے۔
”میرے بیٹے کے منہ میں تیری زبان ہے ،جیسا تو کہتی ہے وہ ویسا ہی کرتا ہے۔”ماں نے غصے سے کہا۔
”اماں تو مجھے الزام نہ دے، اسے بھی گھر کا ماحول نظر آرہا ہے۔ایک بیٹی بھاگ گئی دوسرا بیٹا دن بہ دن آوارہ ہورہا ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کا بھی خیال ہے۔”اسما نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
”بڑا بھائی باپ کے برابر ہوتا ہے۔ اُسے خیال نہیں اپنے چھوٹے بھائی کا کہ اگر آوارہ ہورہا ہے تو وہ اسے سنبھال لے۔”ماں کا غصہ کم نہیں ہو رہا تھا۔
”مجھے نہیں پتا اماں تو کیا کہہ رہی ہے، مجھ پر غصہ کرنے کے بہ جائے تو اپنے بیٹے سے بات کر۔”اسما نے اپنی جان بچانا چاہی۔
”اس پر تو تو نے جادو کردیا ہے۔ اُسے تو ہم سب نظر ہی نہیں آتے۔”ماں نے اس پر الزام لگایا۔
”ہاں یہی الزام رہ گیا تھا تیری طرف سے،بس اماں تم ہمیشہ مجھے ہی بُرا سمجھنا ۔مجھ سے کچھ نہ کہو، جو کہنا ہے اپنے بیٹے سے بولو۔”اسما نے کہا اوراندر چلی گئی۔ماں بے بسی سے بندھے ہوئے سامان کو دیکھتی رہی۔
٭…٭…٭
کنول اپنے کمرے میں بستر پر لیٹی ہوئی تھی کہ اسے گھر والوں کی یاد نے ستانا شروع کر دیا۔پہلے تو وہ ادھر ادھر کروٹیں لیتی رہی کہ اس سے چھٹکارا مل سکے لیکن جب یادیں ہر طرف سے حملہ آور ہوئیں تو اس نے منی کو فون کرنے کا سوچا اور اس کا نمبر ملایا۔
منی اس وقت سو رہی تھی۔تیسری گھنٹی پر اس نے فون اٹھایا اورسوئی ہوئی آواز میں ہیلو کہا، جواباً کنول نے بہت اشتیاق سے ہیلو کیا۔ کنول کی آواز سن کر منی کی آنکھیں پوری طرح کھل گئیں اس نے فوراً پوچھا کہ کون ؟
”مُنی تیری باجی بات کررہی ہوں،کیسی ہے تو؟”کنول نے پرجوش طریقے سے کہا۔
”فوزیہ باجی، تم کہاں ہو؟”منی نے حیرت سے پوچھا۔
”مُنی تو ٹھیک ہے اور گھر میں سب کیسے ہیں؟ ابا اماں اور مُنا؟”کنول نے اس کا سوال نظرانداز کرتے ہوئے پوچھا۔
”تجھے کیا باجی،تو تو ہمیں چھوڑ کر چلی گئی ہے۔ہم مریں یا جئیں۔”منی نے ناراضی سے کہا۔
”میں مجبور تھی مُنی۔” کنول نے دکھی انداز میں کہا۔
”اور تو نے کبھی پوچھا کہ ہم کس مجبوری میں زندگی گزار رہے ہیں؟”منی کے لہجے میں بھی دکھ بول رہا تھا ،کنول پریشان ہوگئی۔
”کیوں کیا ہوا؟ سب ٹھیک تو ہے۔”اس نے فوراً پوچھا۔
”ہاں تیرے بعد سب بدل گیا۔ ابا کا کام نہیں چل رہا،بھائی گھر چھوڑ کر چلا گیا اور مُنے کو سکول سے نکال دیا۔”منی نے پریشانی سے جواب دیا۔
”کیا؟ میرے خدا! اتنا سب ہوگیا۔” کنول نے اپنا سر پکڑ لیا۔
”تو اس وقت کہاں ہے باجی؟ تو ٹھیک تو ہے؟”منی نے ایک دفعہ پھر اس سے سوال کیا۔
”میں شہر میں ہوں،یہاں بہت اچھے بوتیک میں کام مل گیا ہے مجھے۔”کنول نے کچھ سوچ کر جواب دیا۔
”بوتیک؟وہ کیا ہوتا ہے؟” منی نے حیران ہو کر پوچھا۔
”بوتیک جہاں کپڑے سلتے ہیں۔ میں پہلے بھی تو چوہدرانی کے کپڑے سی کے کماتی تھی، اب بھی بڑی عورتوں کے کپڑے سیتی ہے تیری باجی۔”کنول نے مسکرا کر جواب دیا۔
”اچھا باجی تجھے تو بڑے پیسے مل جاتے ہوں گے۔”منی اس کی بات سن کر خوش ہو گئی تھی۔
” ہاں! بہت اچھے، گذارا اچھا ہو جاتا ہے۔”کنول نے کہا پھر بولی۔”اچھا تو میری ایک بات غور سے سُن مُنا کے لیے میں فیس کے پیسے بھیجوں گی جمع کروا دینا، اور ابا کو بھی اس میں سے دے دیناکہ وہ اپنا کام سنبھالے۔”
” ابا نہیں لے گا، وہ تجھ سے بہت ناراض ہے۔”منی نے نفی میں سر ہلایا۔
”اچھا تو پھر اماں کو دے دینا، اُن سے کہنا ان کی بیٹی کی کمائی ہے، اور دیکھو مُنے کو کام پر مت ڈالنا، اسے پڑھانا۔ اچھا سُن تو میری بات اس وقت اماں سے یا منا سے کروا سکتی ہے؟” کنول نے پوچھا۔
اسی دوران دروازے پر آہٹ ہوئی تو منی نے گھبرا کر دروازے کی جانب دیکھا پھر آہستہ آواز میں بولی۔
” نہیں ابھی نہیں سب سو رہے ہیں۔میں پہلے اماں سے بات کروں گی، پھر تیری بات کرواؤں گی۔ابھی لگتا ہے ابا اٹھ گیا ہے میں فون بند کرتی ہوں باجی،اپنا خیال رکھنا۔”یہ کہہ کر اس نے فون بند کر دیا۔
٭…٭…٭